قربانی میں جانوروں کو کاٹ کر کیا فائدہ؟



قربانی مسلمانوں کا ایک انتہائی مقدس مذہبی تہوار ہے،جس میں لوگ دوگانہ ادا کرنے کے بعد جانوروں کی قربانی پیش کر تے ہیں۔جو اظہار بندگی کا بڑا ہی نرا لا اور خوبصورت اندازہے۔ نیز یہ محبت اور آپسی بھائی چارگی کے فروغ کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔مگر مادہ پرست اور کچھ لوگ قربانی کےاس انتہائی معقول اور خوبصورت عمل پر طرح طرح کے شکوک و شبہات اور اعتراضات کر کے لوگوں کو اس سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں،اور در حقیقت یہ لوگ بندے کو خدا کے خلاف بغاوت کا رویہ اختیار کرنے کے لئے اُ کساتے ہیں۔
قربانی کے مسئلے پر اُن کے کئی اعتراض ہیں، ہم ذیل میں ان کی طرف سے پیش کئے جانے والے اعتراضات کا ایک ایک کر کے جائزہ لیں گے کہ ان کی کیا حقیقت ہے۔
اعتراض نمبر ۱: پہلا اعتراض معاشی نقطہ نظر سے ہے۔ان کا کہنا ہے کہ قربانی پر پیسے ضائع کرنے کے بجائے یہی اگر کسی غریب کو دے دیے جائیں تو کئی لوگوں کا بھلاہوجائے۔
جواب : پہلی بات ،اللہ کریم کو ماننے والا کوئی بھی بندہ عبادات کے معاملے میں جسمانی ،معاشی یا کسی اور طرح کے دنیوی فوائد دیکھنے کا قائل نہیں کیونکہ یہ طرز فکرعبادت اور بندگی کی روح ختم کردیتی ہے ۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو جو بھی طریقہ ءعبادت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اس میں بندے کے لئے اتنے زیادہ دنیوی اور اخروی بھلائیاں ہیں کہ ان سب کا ادراک تقریبا ایک ناممکن کا م ہے۔ایک زمانے تک لوگ گمان کرتے تھے کہ وضو،نماز،روزہ اور دیگراسلامی عبادات کا دنیاوی کوئی فائدہ نہیں ہے مگر علم اور سائنس کی ترقی نے یہ ثابت کر دیا کہ انسانی جسم کی تندرستی کے لئے یہ سب قدرت کا دیا ہوا انمول تحفہ ہے۔اور آج ان سب موضوعات پر مستقل کتابیں موجود ہیں ۔اور کتنے ایسے لوگ ہیں جو ان سب کی معنویت کو دیکھ کر خود کو اسلام سے دور نہ رکھ سکے اور دل کی گہرائیوں سے اسلام کو اپنا لیا۔کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ چودہ سو سال پہلے جب سائنس نے کوئی ترقی نہیں کی تھی اُس وقت انسانوں کے لئے ایسے کام کا حکم دینا کسی مخلوق کا کام نہیں ہو سکتا،یہ ضرور اس کا حکم ہے جو انسانوں کا خالق ہے اور وہ ہر چیز جانتا ہے۔مگر مسلمان نہ اُس وقت اِن فوائد کو حاصل کرنے کے جذبات سے یہ سب اعمال کرتے تھے اور نہیں آج ،مسلمان صرف اور صرف اپنے خالق اور مالک کے حکم کی تعمیل صرف اس کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے کرتا ہے۔ اب آئیےقربانی کی طرف۔اگر اس حکم کو ہم خالصتا معاشی نقطہ نظر سے بھی دیکھیں تو یہ معاشیات کی ترقی کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور اس پر اعتراض صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس نے علم معاشیات کبھی نہ پڑھا ہو۔ کیونکہ
نمبر۱:۔ اس کے نتیجے میں ملک کے اندر فارمنگ اور کیٹل انڈسٹری نمو حاصل کرتی ہے جس سے بالعموم چھوٹا کسان یا غریب طبقہ ہی منسلک ہوتا ہے اور عید قربان پر انہیں اپنی محنت کا اچھا مول مل جاتا ہے جو عام مارکیٹ میں نہیں مل پاتا اس طرح قربانی تقسیم دولت پر مثبت اثرات ڈالتی ہے۔
نمبر۲:۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام رقم ویسے ہی غریبوں کو دے دی جائے وہ یہ نہیں جانتے کہ غربت کا اصل علاج پیسے بانٹنا نہیں بلکہ غریب طبقے کےلئے معاشی ایکٹیویٹی کا پہیہ چلانا ہوتا ہے اور قربانی کا عمل اس کا بہترین ذریعہ ہے۔
نمبر۳:۔ پھر ان جانوروں کا گوشت دنیا بھر کے غریبوں میں بانٹا جاتا ہے اور معاشرے کا وہ طبقہ بھی گوشت کھاتا ہے جو پورا سال صرف اس کا خواب ہی دیکھتا ہے۔
نمبر۴:۔ پھر ان جانوروں سے جو کھال حاصل ہوتی ہے اس سے لیدر پراڈکٹس بنتی ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔
نمبر۵:۔ پھر نقل و حمل کے ذرائع سے منسلک لوگ بھی ان دنوں کے دوران جانوروں کی ترسیل کے کاروبار کے ذریعے آمدنی حاصل کرتے ہیں۔اور بہت سے غریب لوگ اِس موقع سے گھاس اور جانوروں کے چارے کا کام کر کے کماتے ہیں ۔نیز قصابی کے پیشے سے منسلک افراد کو بھی ایک بہتر آمدنی حاصل ہوتی ہے۔
الغرض عید قربان چند دنوں کے دوران اربوں روپے کی خطیرمگربے کار سیونگ کو سیال مادے میں تبدیل کرکے معاشی پہیہ تیز کرنے کا باعث بنتی ہے۔ جو لوگ علم معاشیات میں" ملٹی پلائیر" کے تصور سے واقف ہیں وہ کبھی اس قسم کی بات نہیں کر سکتے۔جبکہ وہ اسلام کے تئیں جاہلی تعصب کی آفت سے خالی ہوں۔
بے شک اسلام غریبوں کی وقتی اور فوری ضرورت کو پوری کرنے اور انہیں معاشی اعتبار سے اٹھانے کے لئے بلا واسطہ رقم دینے کے خلاف نہیں،بلکہ زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کی صورت میں ان پر ضروری ہے کہ وہ ایسا کریں۔نیز نفلی صدقات کی جتنی اہمیت اسلام میں ہے بلاشبہ وہ دنیا کے کسی مذہب میں نہیں پایا جاتا۔ان سب کے ساتھ عید قربان کے ذریعے بالواسطہ بے شمار لوگوں کو معاشی فائدہ پہونچانے اور غریبوں کے لئے بہترین کھانےکےانتظام کا جو صالح نظام یہاں پایا جاتا ہے اس کی نظیر بھی کہیں اور نہیں ملتی۔
اِس غریب دوست تہوارکے موقع پر غریب لوگوں کی حمایت کی آڑ میں اسلام پر اعتراض کرنے والوں کی حالت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اِن سے بڑا غریبوں کی دل آزاری کرنے والا کوئی نہیں ہے۔بلکہ غریبوں کو غربت کی آگ میں جھونکنے کے سب سے بڑے ذمہ دار بھی یہی لوگ ہیں۔ حال یہ ہے کہ اِن میں سے کوئی بھی غریبوں کو سخت سے سخت ضرورت پر بھی بلا سود قرض فراہم کرنے کا روادار نہیں۔کیونکہ غریب کی غربت ان کے لئے دولت میں اضافہ کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ نیز اِن لوگوں کو ان اربوں روپے کا ضیاع دکھائی نہیں دیتا جو ہر روز امیر لوگ پیزوں اور برگروں پر اڑا دیتے ہیں،اور شادی کے موقع پر محض اپنی بڑائی اور شان و شوکت کے اظہار کے لئے دس دس ہزار کے کارڈ بنواتے ہیں،اور طرح طرح کے خرافات میں کروڑوں روپیے برباد کر دیتے ہیں، ہیپی نیو ائیر،ویلنٹائن ڈے اور اس طرح کے دوسرےموقع پر انسانیت سوز بے حیائی اور فحاشی اور شراب نوشی پر ایک رات میں کروڑوں کروڑ روپیے ضائع کر دیتے ہیں،جس کا نقصان کے سواکوئی صالح نتیجہ نہیں ہوتا۔اس وقت ان کو غریبوں کی یاد اور سماج کی فلاح وبہبود کے لئے کسی کام کا مطلق خیال نہیں آتا۔اگر کوئی اس وقت ان کو غریب کی یاد ہمت کر کے دلادے تو سامنے والے کو دماغی خلل کا شکار قرار دے دیں اور دقیانوس،بدّو،جنگلی اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازنے لگے۔مگر افسوس یہی لوگ عید قربان کے موقع پر غریب کے کچھ ایسے حمایتی بن جاتے ہیں گویا ان سے بڑا غریب پرور آج تک پیدا ہی نہیں ہوا۔ ان لوگوں کا اصل مسئلہ غریب پروری نہیں بلکہ مذہب دشمنی ہے جس کےلیے یہ ہر موقع کو بےموقع استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔اللہ ان ملحدین کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔آمین۔
اعتراض نمبر ۲: قربانی کے عمل سے جانوروں کی نسل کشی ہو تی ہے اس لئے اسے بند کر دینا چاہیے۔
جواب: کیا جانور صرف قربانی کے موقع ہی پر ذبح ہوتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہر روز بے شمار جانور کاٹے اور کھائے جاتے ہیں۔اور یہ کوئی آج سے نہیں بلکہ لا کھوں سال سے جاری ہے۔ اور ان کاٹنے اور کھانے والوں کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے، پھر جانوروں کی نسل کشی کا الزام صرف مسلمانوں ہی پر کیوں؟ اور صرف قربانی ہی کو بند کرنے کی کوشش کیوں؟ یورپ کے ان عالیشان، دلفریب اور پرکشش ہوٹلوں کو کیوں نہیں جن میں پچاسوں طرح کے کھانے کے مزیدار ڈسیں بنتی ہیں اور ان سب کا بنیادی جزء ،چیکن،مٹن یا پھر بیف ہوتا ہے۔ایں چہ بوالعجبی است!
اگر ان معترضین کی بات کو صحیح مان لی جائے، کہ قربانی کرنے سے ان جانوروں کی نسل ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔تو اب تک کھائے جانے والے جانوروں کو ناپید ہوجانا چاہئے تھا،کیونکہ ہزاروں ہزار برس سے کروڑوں اربوں لوگ اِن جانوروں کو کاٹ اور کھا رہے ہیں۔مگر ایسا نہیں ہوا اور نہیں مستقبل میں ایسا کوئی امکان ہے۔پھر اس اندیشے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے وہ جگ ظاہر ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں جس چیز کا جتنا زیادہ استعمال ہو تا ہے اور جس قدر زیادہ ضروری ہوتا ہے لوگ اس پر اتنی ہی زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اس کی افزائش کا اہتمام کرتے ہیں۔کیونکہ اس سے منسلک مفاد ان کو ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔غور کریں !جن جانوروں کی قربانی ہوتی ہیں جیسے بکرا، بکری، بھیڑ،دنبہ دنبی ،گائے،بیل ،بھینس اور اونٹ، لوگ انہیں کوکیوں پالتے ہیں اور ان پر اتنی زیادہ توجہ کیوں دیتے ہیں؟ کتا،بلی،چوہے پر کیوں نہیں جبکہ جانور دونوں ہیں۔ جواب یہی ہے کہ کیونکہ ان کی قربانی ہوتی ہے، لوگ کھاتے ہیں اوراس کی وجہ سے ان کے پیچھے محنت کرنے والوں کو اچھا معاوضہ ملتا ہے۔ اب آپ سوچیں کہ اگر قربانی بند کر دی جائے اور لوگ سبھی جانوروں کو کھانا چھوڑ دیں تو پھر کیا ہوگا؟ ظاہر ہے انہیں کوئی نہ پالے گا نہ کوئی ان پر توجہ دے گا اور نہیں ان کی افزائش کی کوشش کی جائے گی اور آخر کار ان کا حشر بھی دوسرے غیر ماکول جانوروں کی طرح ہو جائے گا۔معلوم ہوا کہ قربانی میں ذبح کئے جانے والے جانور جوآج کثیر تعداد میں دستیاب ہیں وہ قربانی کی برکت ہے۔یعنی قربانی ان کی نسل کو باقی رکھنے کا ذریعہ ہے نہ کہ مٹانے کا۔مگرکیا کریں۔خرد کا نام جنوں پڑ گیا،جنوں کا خرد۔جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
جانوروں سے بڑی ہمدردی رکھنے والے اور ان کی بقا کی فکر کرنے والے لوگوں سے ایک آخری گزارش ہے کہ آپ بلاوجہ قربانی میں ذبح کئے جانے والےجانوروں سے متعلق پریشان نہ ہوں،کیونکہ ان کو پالنے ،ان کا خیال رکھنے، ان کی خوراک مہیا کرنے،ان کو بڑا کرنے اور ان کے نسل کی افزائش کے لئے کوشش کرنے والے بے شمار لوگ ہیں۔آپ لوگ گلی میں پھرنے والے آوارہ کتوں،بلیوں،چوہوں اور دوسری ہزاروں قسم کے جانور جن کا کوئی خیال رکھنے والا اور جن پر کوئی توجہ دینے والا نہیں ہے،اُن پر توجہ دیجئے،ان کی خوراک مہیا کیجئے اور ان کی افزائش کے لئے کوشش کیجئے،آخر یہ بھی تو جانور ہیں،شاید ان کا بھلا ہو جائے۔اور آپ کے قلب مضطر کو سکون ملے۔
اعتراض نمبر ۳: قر بانی جانوروں پر ظلم اور بے رحمی ہے۔
جواب: کون سا کام ظلم اور بے رحمی ہے اور کون نہیں ؟ اسے کون طئے کرے گا؟ اگر یہ اختیار ہر انسان کو دے دیا جائے تو پھر دنیا کا ہر انسان ظالم ٹھہرے گا۔کیونکہ ایک چیز کو ایک انسان ظلم سمجھتا ہے جبکہ ٹھیک اسی چیز کو دوسرا انسان عین انصاف اور رحمت تصور کرتا ہے۔مثال کے طور پر ایک شخص سمجھتا ہے کہ مچھلی کوپانی سے نکال کر تڑپانا اور اسے مار کر کھاجانا بڑی بے رحمی اور ظالمانہ کام ہے اسی طرح چوہے کو مارنے والی دوا اور مچھر مارنے والے آلے بنانا بے رحمی اور ظلم ہے جبکہ اسی کام میں دنیا کے کثیر افراد کوئی حرج نہیں سمجھتے بلکہ انسانوں کے لئے رحمت قرار دیتے ہیں۔اس لئے پہلے یہ طئے کر لینی چاہئے کہ کسی چیز کو ظلم یا رحمت قرار دینے کا اختیار کس کو ہے اور کس کو نہیں؟ اور اس بارے میں کس کی بات مانی جائے گی اور کس کی نہیں؟
ظاہر ہے کہ یہ اختیار انسان کو نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ہرانسان کی سوچ الگ ہے۔اس لئے اس بارے میں لازماََ ہمیں ماننا ہوگا کہ یہ اختیارصرف اور صرف انسانوں کے پیدا کرنے والے رب العٰلمین کو ہے۔اس لئے ظلم صرف وہ چیز ہوگی جس کووہ ظلم قرار دے اور رحمت وہی ہوگی جس کو وہ رحمت قرار دے۔اسی طرح ناجائز وہ ہوگا جس کو وہ ناجائز کہے اور جائز بھی وہی ہوگا جس کو وہ جائز قرار دے۔ اس جھگڑے کا تصفیہ کرنے کے لئے یہ ایک انتہائی معقول پیمانہ ہے جس سے اختلاف کرنا کسی صاحب عقل کو زیب نہیں دیتا۔
اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کیا انسان اور سارے جہان کو پیدا کرنے والے پروردگار نے جانوروں کو ذبح کرکے کھانےسے منع کیا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے؟
قرآن مجید میں قربانی کا حکم خود اللہ تعالی نے دیا ہے "فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ"پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔
اور خود اللہ تعالی نے جانوروں کا گوشت کھانا حلال فرمایا ہے "وَ الْاَنْعَامَ خَلَقَهَالَكُمْ فِیْهَا دِفْءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنْهَا تَاْكُلُوْنَ" اور چوپائے اسی (اللہ)نے پیدا کئے جن میں تمہارے لیےسردی سے بچاؤ کا سامان ہے، اور اس کے علاوہ بھی بہت سے فائدے ہیں، اور انہیں (جانوروں)میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔ فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآىٕسَ الْفَقِیْرَ۔تو خود بھی [ان جانوروں]میں سے کھاؤ اور مصیبت زدہ محتاج لوگوں کو بھی کھلاؤ۔
یہودیوں اور عیسائیوں کی مذہبی کتاب توریت اور انجیل میں بھی جانوروں کی قربانی اور ان کو کھانے کی اجازت دینے والی کثیر آیات ہیں اس لئے ان کو یہودی اور عیسائی رہتے ہوئے اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں۔رہی بات ہندو دھرم کے لوگوں کی تو ان کی مذہبی کتابیں بھی قربانی کے فضائل اور اس کے طریقوں کے بارے میں بھری پڑی ہیں اور خود ان کے مذہبی پیشواؤں نے زندگی بھر مختلف جانوروں کو کاٹ کر کھاتے رہے اور انہیں کے گوشت سے اپنے مہمانوں کی ضیافت کا انتظام کرتے رہے ،ساتھ ہی اپنے بھکتوں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے رہے۔
چنانچہ دیکھیے: [رگوید کے منڈل :۱، سوکت :۱۶۲، انوواک:۲۲ کے منتر ۴۰۳، ۹ تا ۱۶، ۱۸ تا ۲۰ ]ان منتروں میں ذبح کرنے ، گوشت کاٹنے ، پکانے، کھانے کا طریقہ تفصیل سے موجود ہے اور ساتھ ہی پکوان کا بھی ذکر مذکور ہے۔
وشنو دھرمو ترپران میں ہے کہ:وہ جو ان کا گوشت کھاتے ہیں جو کھانے کے لائق ہیں، وہ کوئی اپرادھ (گناہ) نہیں کرتا، چاہے وہ ایسا روزانہ ہی کیوں نہ کرے، کیونکہ کھانے کے لائق جانور اور نہ کھائے جانے کے لائق جانور کو برہما جی نے پیدا کیا ہے، قربانی کا گوشت کھانا صحیح ہے، اسے دیوی رسم و رواج کے مطابق دیوتاؤں کا حکم مانا جاتا ہے۔ [۳۰۳]
مزید حوالے:
رگ وید: (منڈل:۱۰، سوکت منتر:۱۳)اس میں بیل کوپکانے اور اس کو کھانے کا تذکرہ ہے۔
۔[۶۔۱۱۔۱۷] اس میں بھینس کے کھانے کا تذکرہ ہے۔
۔[۱۰۔۲۷۔۱۳] [۱۰۔۲۷۔۲]ان دونوں میں بیل کے پکانے کا تذکرہ ہے۔
رگ وید: [۱۰-۸۵-۱۳] گائے کا تذکرہ ہے۔
۔[۱۰۔۸۶۔۱۴]بیل کے گوشت اور اس کے فوائد بتائے گئے ہیں۔
اتھروید کے کھنڈ ۹، انوواک: ۱۹، منتر:۶ /اس میں گوشت کو جل (پانی)اور گھی سے پکا ہوا سب سے اعلی کھانا بتایا گیا ہے۔
ہندو قانون کی بنیادی اور مسلمہ کتاب (مہابھارت انو شاسن پرو، ادھیائے:۸۸، شلوک :۵، منوسمرتی :۳۶۸)اس میں کہا گیا ہے کہ جو ایک خاص موقعہ پر گوشت نہیں کھائے گا وہ نرک میں جائے گا۔
ان حوالوں کے بعد ہندو دھرم کو سچا مذہب ماننے والے کے لئے مسلمانوں کی قربانی پر لب کشائی کا کوئی موقع نہیں۔ ہاں وہ لوگ جو کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتے اوراپنی عقل اور سائنس کوہی اپنا مذہب مانتے ہیں ان کی تسلّی بھی ضروری ہے۔
یہ لوگ قربانی کو ظلم اور بے رحمی اس لئے کہتے ہیں کہ کیونکہ اس میں ایک جاندار کو مارا جاتا ہے۔مگر یہ سراسر نا انصافی ہے۔اس لئے کہ سائنسی حقیقت یہ ہے کہ انسان بغیر کسی جان کو مارے ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ایک بار جب انسان سانس لیتا ہے یا پانی پیتا ہے تو ہزاروں جاندار بیکڑیاز کو مار دیتا ہے۔نیز اب سائنس نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ نباتات اور پیر پودوں میں بھی جان ہوتی ہے اور وہ بھی احساس رکھتے ہیں،ایک دوسرے سے کمیونیکیٹ کرتے ہیں اور خوشی غم وغیرہ کی کیفیات سے دوچار ہوتے ہیں اور جب انہیں کاٹا جاتا ہے تو وہ اگرچہ بیل بکری کی طرح نہیں چلّاتے لیکن انہیں بھی درد ہوتا ہے۔تو اب جس منطق سے جانوروں کی قربانی ظلم ہے اسی منطق سے ساگ سبزی کھانا اوردرختوں کو کاٹنا بھی ظلم ہونا چاہئے کیونکہ ان سب صورتوں میں بھی جان کو مارا جاتا ہے۔پھرلوگوں کو چاہئے کہ کوئی چیز نہ کھائے اور نہ پئے کہ ظلم کرنے سے بچے رہیں اور چند دنوں میں جنت باشی ہوجائیں۔مگر کوئی بھی شخص ایسا کرنا تو دور ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔آخر کیوں؟
کیونکہ اس کائنات میں بطور اصل انسان ہے اور دوسری ساری چیزیں اس کے تابع اور فائدے کے لئے ہے اس لئے جو چیزیں انسانی زندگی کوباقی رکھنے اور اسے پروان چڑھانے کے لئے ضروری ہے، انسان کے لئے اس کا استعمال کرنا درست ہوگا اگرچہ اس میں کسی جان کو مارنا ہی کیوں نہ پڑے۔اگر یہ وجہ تسلیم نہ کی جائے تو پھر یہ ماننا ہوگا کہ اِس کائنات میں انسان اور جانور اور دوسری چیزوں سب کا درجہ ایک ہے اور کسی کو کسی کے لئے قربان نہیں کیا جا سکتا ہے،پھر اس کائنات کا ایک قدم بھی چلنا ناممکن ہو جائے گا،لہذا ایسی بات کبھی معقول اور کسی فرد بشر کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتی اس لئے اِس ضد سے باز آنی چاہئے۔ہاں بلاضرورت محض شوق اور کھیل کود کے لئے کسی جانور کو مارنا ضرور ظلم ہونا چاہئے اور ٹھیک یہی اسلام کا حکم ہے۔لیکن انسانی فائدے کے لئے اسلام اس کی اجازت دیتا ہے جو بالکل معقول بات ہے۔
کیاگوشت کھانا انسانوں کے لئے فائدہ مند ہے؟۔ سائنسی تحقیق یہ بتا تی ہے کہ انسان کو متوازن غذا کے لیے چھ اجزاء کی بنیادی طور پر ضرورت پڑتی ہے۔
Proteinلحمیات :
Vitaminsحیاتین
Fibre ریشہ دار اجزاء
Carbohydrates نشاستہ
Minerals salts معدنی نمکیات
Fat شحمیات
اور یہ چھ اجزاء گوشت میں وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔سبزیوں میں بھی ہوتے ہیں لیکن بہت کم۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ انسانی جسم کو صحت مند رکھنے والی چیزیں آخر ان کھانے والے جانوروں کے گوشت میں کیوں رکھا گیا ہے؟
نیز مخلوقات میں غور کیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ جن جانوروں کی فطرت میں گوشت خوری ہے ان کے دانت نوکیلے ہوتے ہیں جیسے شیر چیتا بھیڑیا وغیرہ شکاری جانور،اور جن کی فطرت میں گوشت خوری نہیں ہے ان کے دانت سپاٹ ہوتے ہیں جیسے بکری بھینس گائے بیل وغیرہ گھاس چارا کھانے والے جانور۔
اور انسانوں کے دانتوں کو دیکھا جائے تو اسے دونوں طرح سے بنایا گیاہے،نوکیلے بھی ہیں اور سپاٹ بھی آخر ایسا کیوں ؟
اور گہرائی میں ہم جائیں اور دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن جانوروں کی عادت گوشت کھانے کی نہیں ہے انہیں اگر گوشت کھلادیا جائے تو ان کا نظام ہضم تحمل نہیں کرپاتا ہے وہ بدہضمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے معدوں میں گوشت کو ہضم کرنے کا سسٹم ہی نہیں ہے۔اسی طرح جو جانور صرف گوشت کھاتے ہیں ان کو گھاس اور پتے کھلا دیا جائے تو وہ ان کو ہضم نہیں کر پاتے کیونکہ ان کے معدے میں ان چیزوں کو ہضم کرنے کی طاقت نہیں ہے ۔جبکہ انسان کے معدہ کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہ گوشت بھی ہضم کر سکے اور سبزی بھی ۔آخر ایسا کیوں ؟
ان سب کا جواب صرف یہی ہو سکتا ہے کہ ایسا اس لئے کہ انسان اپنے نوکیلے دانتوں سے گوشت نوچ کر کھائے اور صحت مند رہ کر اپنے اس مالک کا شکریہ ادا کرے جس نے اسے وجود بخشا اور اس کائنات میں اس کے فائدے کے لئے چیزوں کو بنایا۔یہی اصل فطرت ہے اور اس سے انحراف حقیقت میں فطرت سے بغاوت ہے جس میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔
تصور کریں! اگر جانوروں کو نہ کھایا جائے تو ہمارے معاشرت اور ماحولیات پر اس کا کیا اثر ہوگا؟ ظاہر ہے ان کو کوئی انسان نہ پالے گا اور نہ ہی اپنے پاس رکھے گا،ہاں دودھ دینے والے جانور کو ایک مدت تک ضرور رکھے گا مگر ایک مدت بعد جب یہ دودھ دینا بند کر دے گی تو آخر کار ان کو بھی چھوڑ دیا جائے گا۔ پھر ہر طرف آوارہ جانور ہوں گے جو فصلوں کو برباد کریں گے اور آخر ایک دن جب انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اپنی طبعی موت مریں گے تو انہیں نہ کوئی جلانے والا ہوگا اور نہیں دفنانے والا،پھر ان کی لاشوں سے اٹھنے والی بدبو ہزاروں قسم کے امراض کا سبب بنیں گے۔نیز جب یہ جانور انسانی آبادی میں آوارگی کے ساتھ گھومیں گے تو انسانوں کے لئے کس قدر مسائل پیدا کریں گے اس کا اندازہ اس سےلگایا جا سکتا ہےکہ صوبہ اتر پردیش میں گائے کی پابندی کے ڈھائی سالہ مدت کے درمیان جانوروں کی آوارگی کی وجہ سے ایک لاکھ لوگ زخمی اور تین سو لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اگر سب جگہ ایسا ہو جائے تو یہ تعداد کس قدر خوفناک ہو جائے گی بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے وہ لوگ جو جانوروں کو کھانے کی مخالفت کرتے ہیں وہ درحقیقت اس کائنات میں انسان کو اصل اور اعلیٰ کے بجائے جانوروں کے مثل قرار دیتے ہیں۔جو بالکل ہی باطل نظریہ ہے۔
اس سلسلے کی آخری گذارش کے ساتھ بحث ختم کرنا چاہتا ہوں، آج دنیا میں جانوروں کو کاٹنے کےمختلف طریقے رائج ہیں،مثلا کچھ لوگ جانوروں کے گردن کے اوپر تیز ہتھیار چلاتے ہیں اور ایک ہی جھٹکے میں گردن اتار دیتے ہیں اور کچھ لوگ پہلےا سٹن کرتے ہیں پھر گلے پر چھری چلا کر خون بہاتےہیں۔جب کہ اسلامی طریقہ یہ ہے کہ چھری کو پہلے سے تیز کر لیا جائے اور ذبح کے وقت اللہ کریم کا نام لے کر حلقوم اور ’’مری‘‘ یعنی سانس کی نالی اور اس کے اطراف کی خون کی رگیں جنہیں ’’اَوداج‘‘ کہا جاتا ہے کاٹ دی جائیں۔
جرمنی کے ایک یونیورسٹی
Hanover
کے پروفیسر
Schultz
اور ان کے ساتھی ڈاکٹر
Hazem
نے عملی تجربے سے یہ ثابت کیا ہے اسلامی طریقۂ ذبح انتہائی رحمدلانہ اور سب سے اچھا ہے کیونکہ اس میں جانوروں کو کم سے کم تکلیف ہوتی ہے اور خون بھی اچھی طرح سے نکل جاتا ہے جس کی وجہ سے گوشت صحت بخش اور بہترین ہوتا ہے۔اس کے برعکس دوسرے تمام طریقوں میں جانور کو بڑی تکلیف اور اذیت ہوتی ہے اور خون اچھی طرح سے نہیں نکل پاتا جس کی وجہ سے گوشت انسانی صحت کے لئے اتنا بہتر نہیں ہوتا۔ آج سائنسی ترقی کے دور میں لوگوں کو چاہئے کہ جانوروں کو اس طریقے پر ذبح کریں جس سے جانوروں کو کم سے کم تکلیف ہو۔اسی بات کی ہدایت کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے فرمایا:
إنَّ الله كَتَبَ الإحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ فَإذَا قَتَلْتُم فَأحْسِنُوا القِتْلَة ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأحْسِنُوا الذِّبْحَةَ ، وَليُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَه ، وَلْيُرِح ذَبِيحَتَهُ۔اللہ تعالی نے ہر شے پر اچھائی کو فرض کیا ہے،سو جب تم(جنگ کے دوران)قتل کرو تو بہتر طریق پر قتل کرو اور جب جانور ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو،اور اپنی چھری کو دھار لگاؤ اور اپنی قربانی کو سکون پہنچاؤ۔[مسلم:۵۱۶۷]



متعلقہ عناوین



جب اللہ تعالیٰ دکھتا ہی نہیں تو کیسے مانیں؟ قرآن میں کافروں کو قتل کرنے کا حکم؟ پردہ کیوں؟ تعدد ازواج عورتوں کے ساتھ ناانصافی ہے؟ طلاق کی ضرورت کیا؟ مرتد کی سزا قتل کیوں؟ اسلامی سزائیں انسانیت کے ساتھ ظلم ہے؟



دعوت قرآن