مرتد کی سزا قتل کیوں؟



اسلام کے وہ اصول و قوانین جن پر ملحدین کی طرف سے بے جااعتراضات کئے جاتے ہیں،ان میں مرتد کی سزا سر فہرست ہے۔ اس کے خلاف ایسا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے جیسے یہ ایک انتہائی غیر معقول اور ناقابل فہم معاملہ ہو،حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے،بلکہ یہ ایک ایسی معقول سزا ہے جسے دنیا کا ہر ملک جو اپنا ایک قانونی نظام رکھتا ہے اسے اپنانے پر مجبور ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم اسلام کے اس قانون" مرتد کی سزا قتل" کی معقولیت اور اس سے متعلق تفصیلات پیش کریں ،ملحدین کی طرف سے اس مسئلے پر پیش کئے جانے والے اعتراض پر ایک نظر ڈال لیں۔
ملحدین کا کہنا ہے کہ ایک شخص کو لگتا ہے کہ اسلام صحیح مذہب نہیں اس بنیاد پر وہ اسے چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کر تا ہے تو اسلام اسے قتل کی سزا سناتا ہے،یہ چیز انسانی ضمیر کی آزادی کے خلاف ہے،ہر انسان کو یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ جس چیز پر اس کا دل مطمئن ہو اسے قبول کرے اور جس چیز پر اس کا اطمینان نہ ہو اسے قبول نہ کرے۔یہ آزادی جس طرح ایک مذہب کو ابتداءً قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں ہر آدمی کو ملنی چاہئے اسی طرح ایک مذہب قبول کرنے کے بعد اس پر قائم رہنے یا نہ رہنے کے معاملے میں بھی حاصل ہونی چاہئے۔کوئی شخص کسی مذہب کو قبول کرنے بعد اسے چھوڑنا چاہتا ہے،کیوں؟ اسی لئے نہ کہ اس مذہب کے حق ہونے کا یقین جو اسے پہلے تھا اب نہیں رہا،یقین ختم ہونے کے بعد چھوڑنے والے کو پھانسی یا قتل کی سزا دیناکیسے صحیح ہو سکتا ہے،آخر جس چیز کو اس کا دل قبول نہیں کر رہا وہ اس پر کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ایسی صورت میں قتل کی سزا دینے کا مطلب صرف یہی ہوتا ہے کہ جس شخص کی رائے اسلام دلیلوں سے نہیں بدل پاتا اسے قتل کی سزا سے ڈرا کر زبردستی اپنی رائے بدلنے پر مجبور کرتا ہے۔اور یہ کھلی نا انصافی ہونے کے ساتھ خود اسلام کے لئے بھی نقصاندہ ہے، کیونکہ اگر سبھی مذہب کے لوگ اسلام کی طرح اپنے مذہب سے پھرنے والے کی سزا قتل قرار دیں تو جس طرح مسلمان کے لئے دوسرا مذہب قبول کرنا مشکل ہو جائےگااسی طرح دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لئے بھی اسلام قبول کرنا مشکل ہوجائےگا اس طرح تمام مذاہب کے ساتھ خود اسلام کی دعوت وتبلیغ کا راستہ بھی بند ہو جائے گا۔
جواب: سب سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اسلام سے پھر نے والوں کی سزا قتل، ہر جگہ اور ہر حال میں ہے یا نہیں؟ اگر ہر جگہ اور ہر حال میں نہیں تو پھر کس جگہ اور کس حال میں ہے اور کس جگہ ،کس حال میں نہیں؟ اور اس فرق کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
اس بات پر سبھی اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ مرتد کی سزا قتل صرف اسی اسٹیٹ میں ہو سکتی ہے جس کی بنیاد اسلامی نظریہ پر قائم ہو اور جس میں اسلام صرف ایک ایسے مذہب کی حیثیت سے نہ ہو کہ وہ مرنے کے بعد انسان کو نجات دینے والا ہے بلکہ اس حیثیت سے ہو کہ مرنے سے پہلے زندگی کی ترقی اور خوشحالی کا بھی وہ ذمہ دار ہو یعنی جس ملک کا اسلام سے الگ کوئی اپنا ذاتی قانون اور دستور نہ ہو بلکہ اسلام ہی اس ملک کا قانون اور دستور ہو، اور اسلام سے بغاوت کا مطلب ملک اور اس کے قانون سے بغاوت ہو۔ اس کے علاوہ ہر وہ ریاست جو اِس قسم کی نہ ہو اس میں مرتد کی سزا قتل نہیں ہو سکتی۔
اسی طرح وہ شخص جو نابالغ ہو یاپاگل اورذہنی بیماری کا شکار ہو اسے بھی ارتداد کی صورت میں قتل کی سزا نہیں دی جا سکتی۔یہ ہے مرتد کی سزا کے بارے میں اسلام کا قانون۔
اب انصاف کے ساتھ دنیا کے تمام ممالک کے قوانین پر نظر ڈ الئے،خواہ وہ بادشاہی نظام کا حامل ملک ہو یا جمہوری طرز سے چلنے والا ملک۔ ہر ملک اور ہر ریاست اپنے خلاف بغاوت کرنے والے کو پھانسی ہی کی سزا تجویز کرتی ہے اور کوئی بھی ملک بغاوت کرنےو الے کو آزادی فراہم نہیں کرتی، کیونکہ ملک کا قانون اور دستور ایسی چیز ہے جس پر لاکھوں کروڑوں لوگوں کی زندگی کا دارومدار ہے اور اس سے ان کی بھلائی منسلک ہے،اور ظاہر ہے کہ وہ نظام اور قانون جس کے ساتھ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی بھلائی جڑی ہوئی ہے،اس کے خلاف بغاوت صرف کسی شر پسند کی آزادی کے لئے نہیں برداشت کیا جا سکتا۔ اسی لئے ہر ملک اپنے باغی کو پھانسی یا قتل کی سزا دیتاہے۔
جس دلیل کی بنا پر تمام ممالک اپنے خود ساختہ دستور اور قانون سے بغاوت کرنے والے کو پھانسی یا قتل کی سزا دے سکتی ہے آخر اسی دلیل کی بنیاد پر اسلامی ملک اپنے اور ساری کائنات کے بنانے والے خدا کے نازل کئے ہو ئے دستور اور قانون سے بغاوت کرنے والےکو سزا کیوں نہیں دے سکتا؟۔
یہ جس طرح ہر اسٹیٹ کا حق ہے اسی طرح اسلامی اسٹیٹ کا بھی حق ہے اور یہ کو ئی ناقابل فہم معاملہ نہیں جس میں بلاوجہ کی بات بڑھائی جائے۔
جہاں تک رہی یہ بات کہ اسلام کی طرح اگر سبھی مذاہب والے مرتد کو قتل کی سزا دینے لگیں تو دعوت وتبلیغ کی راہیں مسدود ہوجائیں گی اور جس طرح کوئی مسلمان دوسرے مذہب کو نہیں اپنا پائے گا اسی طرح دوسرے لوگ بھی اسلام قبول نہیں کر پائیں گے۔اور نتیجہ کے طور پر اسلام کو نقصان ہوگا۔ یہ بھی ایک بلاوجہ کا اندیشہ ہے کہ ایسی صورت حال میں دوسرے لوگ اسلام قبول نہیں کر پائیں گے۔ اور اسلام کا نقصان ہوگا،حقیقت یہ ہے کہ اِس صورت میں بھی اسلام کا فائدہ ہی ہوگا۔کیونکہ ایسی صورت میں صرف وہی لوگ اسلام قبول کریں گے جن کا دل اس کی صداقت اور حقانیت پر مکمل طور سے مطمئن ہوگا اور اس پر وہ اپنی جان نچھاور کرنے کے لئے بھی تیار ہوگا،اور ایسے سچے لوگ ہی حقیقت میں کسی بھی قوم اور ملت کی اصل پونجی ہوتے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام کی شروع میں یہی صورت حال تھی جس کی وجہ اسلام کو ایسے جیالے ملے جنہوں نے اسلام کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرایا ۔ اور اگر جس طرح اسلام اپنے حدود میں کفر کی تبلیغ کو منع کرتا ہے اسی طرح دوسرے لوگ بھی کریں تو پھر صرف وہی لوگ اس میدان میں قدم رکھیں گے جو نار نمرود میں کودنے کا حوصلہ رکھیں گے اور نتیجے میں کسی قوم کے ایک یا دو فرد نہیں بلکہ پوری پوری قوم دامن اسلام میں آئے گی۔



متعلقہ عناوین



جب اللہ تعالیٰ دکھتا ہی نہیں تو کیسے مانیں؟ قرآن میں کافروں کو قتل کرنے کا حکم؟ پردہ کیوں؟ قربانی میں جانوروں کو کاٹ کر کیا فائدہ؟ تعدد ازواج عورتوں کے ساتھ ناانصافی ہے؟ طلاق کی ضرورت کیا؟ اسلامی سزائیں انسانیت کے ساتھ ظلم ہے؟



دعوت قرآن