باپ،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں



ایک اچھا اور عمدہ باپ ہونے کی حیثیت سے ہمارا اپنی اولاد کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چا ہئے اور ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں اس سلسلے میں رسول اکرم ﷺکی تعلیمات اور زندگی مبارک ہمارے لئے بہترین نمونہ عمل ہے جس سے بہتر تو کجا جس کے برابر کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔اس لئے ہم ذیل میں اس سے متعلق آپ ﷺ کی حیات مبارکہ سے کچھ نمونے اور آپ ﷺ کی تعلیمات قارئین کی نذر اس امید پر کرتے ہیں کہ وہ اس پاکیزہ سیرت کو اپنا کر سعادت دارین حاصل کرنے کی ضرور کوشش کریں گے۔
آپ ﷺکا اپنے بیٹوں اور نواسوں سے محبت: آپ ﷺاپنی تمام اولادوں اور نواسے نواسیوں سے بے پناہ محبت فر ماتے تھے اور ان کے ساتھ رحمت و شفقت کے ساتھ پیش آتے ،اور اپنی امت کو بھی یہی درس دیتے تھے چنانچہ ایک بار حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺسیدنا امام حسن اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہما سے محبت فرمارہے ہیں اور انہیں پیار سے چوم رہے ہیں ۔ تو انہوں نے عرض کیا کہ:یارسول اللہ ﷺ! میرے پاس تو دس بچے ہیں لیکن میں نے ان میں سے کسی کو بھی آج تک نہیں چوما،آپ ﷺ نے ان کی طرف دیکھا اور ارشاد فر مایا:جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔(بخاری،کتاب الادب،حدیث:۵۹۹۷) اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔[ترمذی،کتاب البر،حدیث : ۱۹۲۴]
اسی طرح جب آپ ﷺ کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو آپ ﷺ ان سے بے حد پیار فر ماتے اور اپنی گونا گوں مصروفیات سے وقت نکال کر اپنے لخت جگر کو دودھ پلانے والی مقدس خاتون کے گھر تشریف لے جاتے ،اپنے لخت جگر کو اپنی گود میں اٹھاتے ،انہیں بوسہ دیتے،ان کے ساتھ کھیلتے ،انہیں سونگھتے اور ان سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار فرماتے۔ [مسلم،حدیث: ۲۳۱۵] جب ان کا انتقال ہوا،اورآپ ﷺنے ان کو اپنی گود میں اٹھایاتوآپ ﷺکی آنکھیں آنسو ؤں سے بھر آئیں اور دل از حد غمگین تھا ۔حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تعجب سے کہا:یارسول اللہ ﷺ!آپ آنسو بہارہے ہیں!آقائے کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا :ائے ابن عوف!یہ بے صبری نہیں بلکہ یہ رحمت ہے۔پھر آپ ﷺکے چشمان مبارک سے آنسو کے قطرات ٹپکے تو آپ ﷺ نے فر مایا:آنکھیں اشکبار ہیں اور دل غمگین ،لیکن زبان سے ہم وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا پرور دگار راضی ہے،ائے ابراہیم ! بے شک ہم تیری جدائی پر غمگین ہیں۔دوسری روایت میں ہے کہ : آپ ﷺنے فر مایا:اللہ تعالی آنکھ کے آنسوؤں پر عذاب دیتا ہے اور نہ ہی دل کے غم پر ،اور پھر اپنی زبان اقدس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:لیکن اس کی وجہ سے عذاب دیتا ہے۔[صحیح بخاری،کتاب الجنائز، باب قول النبی ﷺانا بک لمحزون،حدیث: ۱۳۰۴،۱۳۰۳])
آپ ﷺکا اپنی بیٹیوں اور نواسیوں سے محبت: رسول اکرم ﷺکی آمد سے پہلے بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان بڑا ہی امتیازانہ سلوک روا رکھا جاتا تھا بلکہ بعض لوگ تو اپنی بیٹیوں کو محبت کا حقدار سمجھنا تو دور اسے زندہ رہنے کا بھی حقدار نہیں سمجھتے تھے مگراسلام کی نظر میں جس طرح سے بیٹا اپنے باپ کی طرف سے محبت و شفقت کا حقدار ہے اسی طرح بیٹی بھی حقدار ہے،چنانچہ آپ ﷺ جس طرح اپنے بیٹوں اور نواسوں سے محبت فر ماتے اسی طرح اپنی بیٹیوں اور نواسیوں سے بھی محبت فرماتے ، روایت ہے کہ جب آپ ﷺ کی لخت جگر سیدۃ نساء العالمین سیدہ ،طیبہ، طاہرہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ سے ملنے آتیں تو آپ ﷺ ان کے اعزاز کے لئے کھڑے ہوجاتے ،ان کے ہاتھ کو پکڑتے ،انہیں اپنے پہلو میں بیٹھاتے ،ان کی مزاج پرسی فرماتے ،ان کے حالات پوچھتے اور ان سے بے پناہ محبت کا اظہار فر ماتے اور جب وہ جانے کے لئے اٹھتیں تو آپ بھی کھڑے ہوجاتے اور انتہائی محبت کے ساتھ رخصت فرماتے۔
ایک مرتبہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ایک تکلیف دہ معاملہ کا سامنا ہونے والا تھا توآپ ﷺنے فرمایا:میری بیٹی میرے جگر کا ٹکڑا ہے جو بات اسے پسند ہے وہ مجھے بھی پسند ہے اور جس بات سے اسے تکلیف پہنچتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے۔[بخاری،حدیث :۳۷۱۴۔مسلم،حدیث: ۲۴۴۹]
کئی دفعہ دیکھا گیا کہ آپ ﷺ نے گھر سے نکلتے وقت اپنی نواسی حضرت اُمامہ کو اپنے کندھے پر اٹھا لیا ،بعض اوقات آپ ﷺ نفل نماز کے دوران انہیں اپنی پشت انور پر اٹھالیتے ،جب رکوع فر ماتے تو انہیں اُتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے ۔[بخاری ،کتاب الادب،حدیث :۵۹۹۶]
آپ ﷺ نے بچیوں کے تعلق سے لوگوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے تمام خرافات کو جڑ سے نکال پھینکا کہ یہ بچیاں اپنے والدین کے لئے ایک ناگوار بوجھ ہے اور خاندان کی ذلت ورسوائی کا سبب ہے اور اپنی امت کو اپنی بیٹیوں سے محبت و شفقت پر ابھارااور اس پر اجر عظیم بیان فر مایا۔ان ارشادات میں سے کچھ آپ بھی پڑھئے تاکہ آپ کے دل کے اندر اپنی بچیوں کی قدر ومنزلت پیدا ہو۔
حدیث ۱: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا:جو شخص ان بچیوں کے باپ بننے سے آزمایا گیا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو وہ بچیاں اس کے لئے جہنم کی آگ سے رکاوٹ ہوں گی۔[بخاری،حدیث: ۵۹۹۵]
حدیث ۲: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں تو میں اور وہ اس طرح جنت میں داخل ہوں گے ۔آپ ﷺنے یہ فرمایااور اپنی انگلیوں کو ملا کر دکھایا۔[مسلم،حدیث:۲۶۳۱،ترمذی،حدیث: ۱۹۱۴]
حدیث ۳: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :جس شخص کی کوئی بچی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے،اس کی توہین بھی نہ کرے ،اپنے بیٹے کو اس پر ترجیح بھی نہ دے تو اس کام کے بدلے اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔[ابوداود،حدیث: ۵۱۴۶]
حدیث ۴: نبی کریم ﷺنے سراقہ بن جعثم رضی اللہ عنہ سے فرمایا:اے سراقہ! کیا میں تمہیں سب سے بڑے صدقے(یعنی وہ صدقہ جس کا ثواب سب سے زیادہ ہے) کے بارے میں نہ بتادوں؟ انہوں نے عرض کیا:ہاں !یارسول اللہ ﷺضرور مہربانی فر مایئے ۔آپ ﷺ نے فرمایا:تیری وہ بیٹی جو(طلاق پاکر یا بیوہ ہوکر)تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا اس کے لئے کمانے والا کوئی نہ ہو۔[ابن ماجہ،حدیث: ۳۶۶۷]
حدیث ۵: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ:تحفوں کے تقسیم کرنے میں اپنی اولاد میں برابری رکھو ،ا گر میں کسی کو کسی پر فضیلت دیتا تو میں بیٹیوں کو بیٹوں پر فضیلت دیتا۔[المعجم الکبیر للطبرانی،حدیث: ۱۱۹۹۷]
حدیث ۶: حضرت صعصہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :ایک عورت اپنی دو بچیوں کے ساتھ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی ۔آپ نے اسے تین کھجوریں عنایت فر مائی۔ تو اس نے ایک ایک کھجور اپنی بیٹی کو دے دی اور ایک کھجور بچ گئی تو اس نے اس کے دو ٹکڑے کی اور ایک ایک ٹکڑا دونوں کو دے دی۔(اور خود کچھ بھی نہیں کھائی)جب نبی کریم ﷺتشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺنے فرمایا۔جس بات کی وجہ سے تمہیں تعجب ہوا وہ ایسی بات ہے کہ اللہ تعالی اس کی وجہ سے اسے جنت میں داخل فر مائے گا ۔[ابن ماجہ،حدیث: ۳۶۶۸]
آپ ﷺکی تر بیت اولاد: آپ ﷺاپنی اولاد وں سے انتہائی شفقت سے پیش آتے ان کی ضروریات کھانے،رہنے،کپڑے وغیرہ کا انتظام فرماتے لیکن ان تمام تر شفقتوں اور محبتوں کے باوجود آپ ﷺ انہیں نظم وضبط کی خلاف ورزی کرنے اور بے پروائی کے راستے پر چلنے کی اجازت نہ دیتے اور انہیں ہر قسم کی اخلاقی اور دینی کمزوری کے شکار ہونے سے بچانے کے لئے انتہائی باریکی سے پوری کوشش فر ماتے اور انہیں اخروی زندگی کے لئے تیار فر ماتے۔ اسی طرح آپ ﷺ جن سے بھی محبت فرماتے انہیں اس محبت کے تقاضے کے تحت دنیا کی گندگی سے دور اور پاک رکھتے ،ان کی نگاہیں اور توجہ عالم آخرت کی طرف پھیرتے اور انہیں وہاں اپنی رفاقت کے لئے تیار کرتے ،کیونکہ آخرت میں ہر انسان اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اسے محبت ہوگی۔[بخاری،الادب،حدیث :۶۱۷۰ مسلم،البر ،حدیث: ۲۶۴۰]
ٓج کل بعض حضرات اپنے اولاد کی ہر جائز وناجائز خواہش کی تکمیل کر نے میں مصروف رہتے ہیں مگر رسول اللہ ﷺکی اپنی چہیتی لخت جگر کی تربیت کا ایک منظر ملاحظہ کریں۔
ایک دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکّی پیسنے سے ہاتھ میں پڑنے والے نشانات کی شکایت کی،رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے تو وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں ،لیکن آپ ﷺسے ملاقات نہ ہو سکی۔ان کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات ہوئی اور انہیں اپنی صورتحال بتائی۔جب نبی کریم ﷺتشریف لائے تو انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آمد کی اطلاع دی ،(حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ)تب حضور ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے ،اور اس وقت ہم اپنے بستروں پر جا چکے تھے ،میں آپ ﷺکے استقبال کے لئے اٹھنے لگا لیکن آپ ﷺنے فر مایا:اپنی جگہ پر لیٹے رہو۔کہتے ہیں کہ:پھر آپ ﷺ ہمارے درمیان بیٹھ گئے اور ارشاد فر مایا:کیا میں تمہیں اس چیز سے بہتر بات نہ سکھادوں جو تم نے مجھ سے مانگی ہے ۔جب تم بستروں پر لیٹا کرو تو ۳۴؍ مرتبہ ’ اللہ اکبر ‘ اور ۳۳؍ مرتبہ ’ سبحان اللہ ‘ اور ۳۳؍ مرتبہ ’ الحمد للہ ‘پرھ لیا کرو یہ تمہارے لئے خادم سے بہتر ہے[بخاری، حدیث :۳۷۰۵۔مسلم،حدیث: ۲۷۲۷]
یعنی میں تمہاری توجہ عالم آخرت کی طرف مبذول کراتا ہوں ۔اُس عالم میں مجھ تک پہنچنے کے لئے اور میری رفاقت حاصل کر نے کے لئے تمہارے سامنے دو راستے ہیں ۔ایک یہ کہ بغیر کسی کمی اور کوتاہی کے اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔دوسرا یہ کہ اپنے شوہر کے بارے میں اپنی ذمہ داریاں اداکرو۔اپنے شوہر کی جوخدمت تم پرلازم ہے اگر اسے خادم نے انجام دیا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمہارے اندر کوئی کمی ہے۔اعلیٰ اور بلند انسان بننے کے لئے دونوں پہلوؤں پر عمل کرنا ہوگا۔پہلے تو اپنے پروردگار کی کامل بندی بنو اور ساتھ ہی اپنی دنیاوی ذمہ داریاں بھی پوری کرو۔
اسی طرح حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو گردن میں سونے کی زنجیر پہنے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:اے فاطمہ! کیا تم اس وجہ سے دھوکے میں مبتلا ہوکہ لوگ کہتے ہیں کہ:یہ رسول اللہ کی بیٹی ہے۔اس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس سونے کی زنجیر کو بیچ کر اس سے حاصل ہونے والے روپئے سے ایک غلام خرید کر آزاد کردیا۔[نسائی،کتاب الزینۃ،حدیث: ۵۱۴۰]
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لئے سونا پہننا ناجائز نہ تھا لیکن آپ ﷺ اپنی بیٹی کو اللہ کی ان خاص بندیوں میں رکھنا چاہتے تھے جو دنیا کی زیب وزینت چھوڑ کر صرف رضائے الہی میں اپنی زندگی گزارتی ہیں ۔
سبحان اللہ !کتنی پاکیزہ تر بیت ہے!!!اور در اصل ایسی ہی تر بیت ،اولاد کی سچی خیر خواہی ہے۔
مگرکتنے افسوس کی بات ہے کہ آج لوگ اپنی بیٹیوں کو انگریزی لباس پہنتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔جس میں ان کے بدن کا ہر نشیب وفراز جھلکتا ہے ۔وہ سراپا گناہ کی دعوت بنی آزاد گھومتی پھرتی ہیں مگر ہماری زبان سے ایک لفظ بھی ان کے خلاف نہیں نکلتا بلکہ ہم خود انہیں ایسے لباس لا کر دیتے ہیں اور اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔جب کہ آقائے کریم ﷺنے یہاں تک کہ ارشاد فر مایا کہ:جو عورت ایسی خوشبو لگا کر گزرے جس کی خوشبو لوگ محسوس کریں تو وہ زانیہ ہے۔(نسائی،حدیث:۵۱۲۶)اور ارشاد فر مایا کہ:وہ عورتیں جو چست لباس پہنتی ہیں وہ کپڑا پہن کے بھی ننگی ہیں۔وہ خود حق راستے سے ہٹی ہوئی ہیں اور دوسروں کو بھی راہِ حق سے ہٹانے والی ہیں۔وہ جنت میں نہیں جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی نہیں پائیں گی جبکہ جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت تک جائے گی۔[مسلم،حدیث: ۲۱۲۸]
آپ ﷺ کی تر بیت اولاد کے تعلق سے بہت سارے واقعات کتب احادیث میں موجود ہیں ان سب کا بیان ان چند صفحات میں ممکن نہیں اس لئے اب آخر میں تربیت اولاد کے تعلق سے قرآن مجید کی کچھ آیات اور آپ ﷺ کے کچھ ارشادات نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤجس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔(سورہ تحریم،آیت: ۶]
] حکم دو اپنے گھر والوں کو نماز کا اور خود بھی اس پر قائم رہو۔[سورہ طہ،آیت:۱۳۲
حدیث ۱: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :رسول اللہ ﷺنے فرمایا:سات سال کی عمر میں اپنی اولاد وں کو نماز پڑھنے کا حکم دو۔ اور جب دس سا ل کے ہوجائیں (اور نہ پڑھیں )تو انہیں مار مار کر پڑھائو اور ان کے بستر الگ کردو۔[سنن ابوداؤد، حدیث:۴۹۵،ترمذی،حدیث: ۴۰۷]
حدیث ۲: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:تم اپنے اولاد کی عزت کرو اور انہیں اچھا ادب سکھاؤ۔[ابن ماجہ،حدیث: ۳۶۷۱]
حدیث ۳: حضرت سعید بن ابی العاص روایت کرتے ہیں اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:وہ تحفے جوایک باپ اپنے بیٹے کو دیتا ہے ان میں سے سب سے اچھا تحفہ ،نیک ادب ہے۔[المستدرک للحاکم، حدیث: ۷۶۷۹ ]
حدیث ۴: حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:اللہ کی قسم !اگر تم میں سے کوئی اپنے بچوں کو ادب سکھائے تو وہ ہر دن دو کلو صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔[المستدرک للحاکم،حدیث:۷۶۸۰]
حدیث ۵: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم میں سے ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کا محافظ ہے ،اور ہر شخص سے اس کے ماتحت لوگوں کے متعلق سوال ہوگا،ملک کا صدر اپنے عوام کا محافظ ہے اور اس سے اس کے عوام کے بارے میں سوال کیا جائے گا ،اور شوہر اپنی بیوی کا محافظ ہے اس سے اس کی بیوی کے بارے میں پوچھا جائے گا،اور عورت اپنے شوہر کے گھر کی محافظ ہے اس سے اس کے گھر کے بارے میں پوچھا جائے گا،اور خادم اپنے مالک کے مال کا محافظ ہے اس سے اس کے مال کے بارے میں پوچھا جائے گا ،تم میں سے ہر شخص اپنے ماتحت لوگوں کا محافظ ہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔[بخاری، حدیث: ۸۹۳،تر مذی،حدیث: ۱۷۰۵]
باپ پر ان کی اولاد کے حقوق: وہ حقوق جو ایک باپ پر اپنی اولاد کے تعلق سے لازم ہے ،ان کی بڑی لمبی فہرست ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں ،جنہیں تفصیل سے اس بارے میں جانکاری حاصل کرنے کا شوق ہو انہیں چاہئے کہ وہ اعلیٰ حضرت کا رسالہ’ مشعلۃ الارشاد فی حقوق الاولاد ‘ کا مطالعہ کریں۔[فتاوی رضویہ،جلد :۲۴؍صفحہ:۴۵۱،مطبوعہ : مرکز اہل سنت برکات رضا]
حقیقت میں ایک باپ جب تک کے اپنی اولاد کے ان حقوق کو نہ ادا کرے جو اس پر ایک باپ ہونے کی حیثیت سے لازم ہے ایک اچھا باپ نہیں کہا جاسکتا ۔کیونکہ فرمان رسالت ہے۔ہر حقدار کو اس کا حق دو۔(بخاری،حدیث: ۶۱۳۹]



متعلقہ عناوین



بیٹا ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں شوہر،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں مالک،سیرت مصطفیﷺ کے آئینے میں بھائی ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں رشتہ دار ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں پڑوسی،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مہمان اور میزبان،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مسافر،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مدد اور تعاون،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں کسب و تجارت،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں دعوت وتبلیغ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں ادائیگئی حقوق،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں



دعوت قرآن