کسب و تجارت،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں



ہر انسان پر اتنا کمانا ضروری ہے جس سے وہ اپنی عام دنیاوی ضروریات پوری کر سکے اور اسے غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت برداشت نہ کر نا پڑے۔ آقائے کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے بھی اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے کمایا ۔چنانچہ آپ ﷺنے تجارت کیا اور اس سے پہلے بکریاں چرائی۔جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہ بھیجا جنہوں نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔صحابہ کرام نے عرض کیا:آپ نے بھی یا رسول اللہ ﷺ؟آپ ﷺ نے فر مایا کہ: ہاں !میں بھی کبھی چند قیراط کی تنخواہ کے بدلے مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔[بخاری،حدیث: ۲۲۶۲]
اور اپنی امت کو بھی اس کی تر غیب عطا فرمائی ۔چنانچہ حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فر مایاکہ:اس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کر کے حاصل کیا ہو ۔اور بے شک اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔[بخاری،حدیث: ۲۰۷۲]
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:وہ شخص جو لکڑی کا گھٹا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے اس سے بہتر ہے جو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا پھرتا ہے،پھر لوگ چا ہتے ہیں تو کچھ دے دیتے ہیں اور چا ہتے ہیں تو نہیں دیتے ہیں۔ [بخاری،حدیث: ۲۰۷۴،۲۰۷۵]
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اکرم ﷺنے ارشاد فر مایاکہ:بے شک اللہ تعالی محنت ومزدوری کرنے والے بندہ مو من کو پسند فر ماتا ہے۔[طبرانی]
ایک انسان جن ذرائع و وسائل سے مال و دولت کماتا ہے ان میں تجارت ایک نہایت ہی نفیس اور عمدہ ذریعہ ہے مگر اس شعبے سے جڑے ہوئے اکثرلوگ ایسے گنا ہوں میں ملوث ہوتے ہیں جو ان کی ذاتی شرافت و انسانیت کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی تباہ و بر بادی کا بھی سبب ہوتا ہے ۔جیسے جھوٹ بول کر اپنا مال بیچنا ،لو گوں کو دھوکہ دے کر منا فع کمانااورغلے وغیرہ کا ذخیرہ کر لینا اور مشکل حالات میں جب کہ لوگ خریدنے پر مجبور ہوں اس وقت دو گنی تین گنی قیمت بڑھا کر بیچنا وغیرہ ۔
اسی لئے رسول اکرم ﷺ نے اس شعبے میں پائی جانے والی تمام برائیوں کا خاتمہ فر مایااور دنیا کو ایک ایسا نظام تجارت عطا فر مایا جو نہ صرف کسی خاص ملک اور قوم کی ترقی کا ضامن ہے بلکہ پوری دنیا سے غربت و افلاس ختم کرنے اور معاشی نا ہمواریوں کو مٹاکر ہر ایک کی معاش کو مستحکم کر نے کا ضامن ہے ۔اس پورے نظام کو یہاں بیان کر نے کی گنجائش تو نہیں ۔البتہ ان تعلیمات میں سے کچھ ہم یہاں بیان کر نے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جسے اپنا کرہر تا جر دنیا اور آخرت کی بھلائیاں جمع کر سکتا ہے ۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایاکہ:تمام کمائیوں میں زیادہ پاکیزہ کمائی ان تا جروں کی کمائی ہے کہ:جب وہ بات کریں تو جھوٹ نہ بولیں ،اور جب ان کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت نہ کریں ،اور جب وعدہ کریں تو اس کے خلاف نہ کریں ،اور جب کسی چیز کو خریدیں تو اس کی برائی نہ کریں(یعنی پسند ہو تو لے لیں ورنہ چھوڑ دیں برائی کر کے اس کو نقصان نہ پہنچائیں)اور جب اپنی چیز بیچیں تو ان کی تعریف میں مبا لغہ نہ کریں(یعنی اسے بڑھا چڑھا کر نہ بیان کریں )اور ان پر کسی کا (کوئی لین دین )آتاہو تو دینے میں ڈھیل نہ دیں اور جب ان کا کسی پر آتا ہو تو سختی نہ کریں۔[شعب الایمان ]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے اشاد فر مایا کہ:کوئی شخص اپنے بھائی کے خرید و فروخت میں دخل اندازی نہ کرے۔(یعنی جب ایک بھائی قیمت طئے کر رہا ہو تو دوسرا بھائی خریدار کو اپنی طرف لبھانے کے لئے اس سے کم قیمت نہ بو لے)[بخاری،حدیث: ۲۱۳۹]
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:سامان کو بیچنے میں قسمیں کھانے سے پر ہیز کرو کیو نکہ اگر چہ اس طرح سے سامان توبک جاتا ہے مگر بر کت ختم کر دی جاتی ہے۔[بخاری،حدیث:۲۰۸۷۔مسلم،حدیث: ۱۶۰۶]
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام نہیں فر مائے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت فر مائے گااور نہ ہی ان کو پاک کرے گا۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:میں نے کہا کہ:یا رسول اللہ ﷺ! وہ تین لوگ کون ہیں؟ آپ ﷺ نے فر مایاکہ:(تکبر سے ٹخنے کے نیچے )کپڑا لٹکانے والا،کسی کو کچھ دے کر احسان جتلانے والا،جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان بیچ دینے والا۔[مسلم،حدیث:۱۰۶،ترمذی،حدیث: ۱۲۱۱]
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:خریدنے اور بیچنے والے کو اختیا ر ہوتا ہے جب تک کہ وہ دونوں الگ نہ ہو جائیں (لینے یا نہ لینے اور دینے یا نہ دینے کا)پھر اگر دونوں نے سچا ئی اختیا ر کی اور ہر بات کھول کھول کر بتا دیا تو ان کے خرید و فر وخت میں بر کت ہوگی ،اور اگر انہوں نے کچھ چھپا یا یا جھوٹ بولا توان کے خرید و فر وخت کی بر کت ختم کر دی جاتی ہے ۔ [بخاری،حدیث:۲۰۸۲۔مسلم،حدیث: ۱۵۳۲]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیا ن کرتے ہیں کہ:نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:سچ بولنے والا ،امانت دار تاجرانبیاء، صدیقین اورشہداء کے ساتھ ہوگا۔[ترمذی،حدیث :۱۲۰۹۔]
حضرت جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایاکہ:اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جو خریدتے وقت اور بیچتے وقت اور تقاضہ کرتے وقت فیاضی اور نر می سے کام لیتا ہے۔ [بخاری،حدیث: ۲۰۷۶]
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:گزشتہ زمانے میں ایک شخص کی روح قبض کرنے جب فر شتہ آیا تو اس سے کہا گیا کہ :تجھے معلوم ہے کہ تو نے کچھ اچھا کام کیا ہے؟اس نے کہا:میرے علم میں تو کوئی اچھا کام نہیں ہے ۔اس سے کہا گیا کہ غور کر کے بتاؤ۔اس نے کہا کہ : اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ میں دنیا میں لوگوں سے سامان وغیرہ بیچتا تھا اور ان کے ساتھ اچھی طرح پیش آتا تھا اگر مالدار آدمی بھی مہلت مانگتا تھا تو اسے مہلت دے دیتا تھا اور تنگدست سے در گزر کر تا تھا یعنی معاف کر دیتا تھا ۔اللہ تعالیٰ نے اسے جنت میں داخل کردیا ۔اور صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت عقبہ بن عامر وابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہما سے ہے کہ:اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ: میں تجھ سے زیادہ معاف کرنے کا حقدار ہوں ،اے فر شتو!میرے اس بندے کو چھوڑ دو۔[بخاری،حدیث : ۲۰۷۷۔ ۲۳۹۱۔ مسلم،حدیث:۱۵۶۰۔۲۹۳۴۔ ۲۹۳۵]
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے اگروہ صدقہ کرے تو مقبول نہیں ،اور خرچ کرے تو اس کے لئے اس میں برکت نہیں اور اگر چھوڑ کر مر جائے تو اس کی وجہ سے جہنم میں جائے۔(یعنی مال کی تین حالتیں ہیں اور حرام مال کی تینوں حالتیں خراب) اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ،ہاں !نیکی سے برائی کو ختم فر ماتا ہے ۔بے شک خبیث خبیث کو نہیں مٹا تا۔[مسند احمد بن حنبل]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان کو ئی پرواہ نہ کرے گا کہ اس نے جو کمایا ہے وہ حرام ذریعے سے ہے یا حلال ذریعے سے۔[بخاری،حدیث: ۲۰۵۹]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ:رسول اللہ ﷺ فر مارہے تھے کہ :جو چاہے کہ اس کی روزی میں کشادگی ہو جائے تو اسے چا ہئے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ [بخاری،حدیث: ۲۰۶۷]
پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات سے نا آشنا بعض حلقوں میں یہ پر و پیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ :آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہمارا سارا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور ہم دنیا کی تیز رفتار دوڑ میں کا فی پیچھے رہ جائیں گے[نعوذ باللہ من ذلک]
وہ یہ بھو ل گئے ہیں کہ حقیقی اور دیرپا تر قی کے لئے تجارتی سر گر میوں کو مناسب اصول وضوابط کے دائرے میں رکھنا انتہائی ضروی ہے۔اقتصادیات کے ماہرین کے نزدیک ہمارے موجودہ معاشی و اقتصادی بحران کا بنیادی سبب معاشی سر گر میوں کا اخلاقی قیود اور پابندیوں سے آزاد ہونا ہے ۔ آج بھی ہم اپنی تجارت و معیشت کو پیغمبر اسلام ﷺکی بتائی ہوئی جامع اصولوں کی روشنی میں صحت مند بنیادوں پر استوار کر کے ایک مضبوط و مستحکم معیشت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔



متعلقہ عناوین



بیٹا ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں باپ،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں شوہر،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں مالک،سیرت مصطفیﷺ کے آئینے میں بھائی ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں رشتہ دار ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں پڑوسی،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مہمان اور میزبان،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مسافر،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مدد اور تعاون،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں دعوت وتبلیغ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں ادائیگئی حقوق،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں



دعوت قرآن