رسول اکرم ﷺ بحیثیت سپہ سالار



رسول اکرم ﷺنے کن مقاصد کے خاطر ،کن حالات میں،کس کے ساتھ اورکن شرائط و آداب کے ساتھ اپنے فو جیوں کو لڑایا ۔یہ سب نہ جاننے کی وجہ سے لوگ طرح طر ح کے الجھنوں کے شکار ہو جاتے ہیں۔اور پھر ایسی بے سروپا باتیں کرنے لگتے ہیں جو ان کی جگ ہنسائی کا سبب بن جاتی ہیں ۔اس لئے ہم پہلے ان امور کی قدرے وضاحت پیش کرتے ہیں پھرآپ کو یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہوگی کہ کیسے دنیاوی ساز وسامان اور مادی وسائل کی بے پناہ کمی کے باوجود آپ نے ہر جگہ فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑے ۔اور بحیثیت سپہ سالار ایسی کامیابی حاصل کی جو دنیا کے کسی سپہ سالار کو حاصل نہ ہوئی اور نہ ہوگی۔
کن حالات میں آپ ﷺ جنگ فر مایا: رسول اکرم ﷺنے جب بندوں کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو ان کے رب سے جوڑنے کی تحریک شروع فرمائی جس کے نتیجے میں وہ خوش نصیب لوگ جن کی جبینوں میں سعادت کا نور چمک رہا تھا انہوں نے آپ کی دعوت کو قبول کرلی۔ اور جھوٹ،دغا ،فریب،لوٹ مار،عہد شکنی،غصب ،مردار خوری ،شراب نوشی اور ان کے علاوہ ان تمام برائیوں کے نہ کرنے کا پکا عہد کر لیا جو کبھی وہ شوق سے کیا کرتے تھے بلکہ اس کو اپنی عزت وشان کا ذریعہ سمجھتے تھے۔پھر کیا تھا،ان پر ظلم وستم کاپہاڑ ڈھایا جانے لگا،کسی کو چلچلاتی دھوپ میں گرم زمین پر لٹاکر اتنا مارا جاتا کہ وہ لہولہان ہوجاتے پھر ان کے سینوں پر پتھر رکھ کر انہیں دن بھر سوکھنے کے لئے چھوڑ دیا جاتااور کسی کے سینے میں تیرو سنان کے نشتر چبھوئے جاتے ۔کسی کو گا لیاں دی جاتیں اور کسی کے راستے میں کانٹے بچھائے جاتے ۔کسی کی ننگی پیٹھ پر کوڑے مارے جاتے اور کسی کے جسم پر منوں وزنی گندگی ڈال کر قہقہہ لگایاجاتا۔آئے دن ظلم وستم کے نت نئے طریقے ایجاد کئے جاتے اور اس طریقے سے مسلمانوں کو اور آپ ﷺکو ستایا جاتا۔تیرہ سال تک مصائب و آلام کے اس بے رحم طوفان کا بے مثال صبر وتحمل کے ساتھ سا منا کرتے رہے پھر آخر کار روز روز کے ظلم وستم سے تنگ آکر اپنی زندگی بھر کی کمائی،زمین ،جائیداد اور دکان ومکان سب چھوڑ کر اپنے وطن سے چار سو پینسٹھ کلو میٹر دور یثرب(مدینہ طیبہ)نامی بستی میں جاکر پناہ گزیں ہونے کا ارادہ کر لیا مگر ان کے دشمنوں کو یہ بھی گوارا نہ ہو اکہ کوئی شخص آسانی سے وہاں چلا جائے چنانچہ اس ہجرت کے دوران انہیں بے پناہ مشقتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ کسی کے بچے اور بیوی کو روک کر اکیلے جانے پر مجبور کیا گیا تو کسی کوجان سے مارنے کی کوشش کی گئی ۔اس زمانے میں یہ سفر ایک مہینے میں طے کیا جاتا تھا مگراس سفر کے دوران ان کے جسم پر پہنے ہوئے کپڑوں کے سوا کوئی اور کپڑا نہ تھا ،نہ ان کے ساتھ کھانے اور پینے کا کوئی انتظام تھا۔ مگر اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ کار بھی نہ تھا آخر کار انہوں نے اپنے رب کے سہارے اس سفر کو مکمل کیا اور مدینہ طیبہ میں آکر پناہ گزیں ہوگئے۔
مگر ان کے دشمنوں نے ان تمام تکلیفوں اور مصیبتوں کو بھی ان کے لئے کافی نہ سمجھا تو اب اپنے جذبئہ عداوت کو تسکین دینے کے لئے دھمکیوں اور فوجی قوتوں سے ڈرانا شروع کیا اور انہیں وہاں بھی چین و سکون کا سانس نہ لینے دیا تب ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب مکرم ﷺپر یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:"وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقا تلونکم ولا تعتدو ان اللہ لایحب المعتدین"۔خدا کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں ۔اور حد سے تجاوز نہ کرو بے شک اللہ تعالی حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔[سورہ بقرہ]
اور ان مظلوم ستم رسیدہ مسلمانوں کو طاقت کاجواب صبر کے بجائے طاقت سے دینے کی اجازت دی گئی۔ اور ان سے کہا گیا کہ لڑو، قتل کرو،ان ظالموں کے پنجہ استبداد کو مڑوڑو۔
آپ ﷺکی جنگوں کے مقاصد: مگر ساتھ ہی یہ وضاحت کردی گئی کہ تمہارا لڑنا اپنے غضبانی جذبے کی تسکین کے لئے نہ ہو ،دشمن کے زر وجواہر پر قبضہ کرنے کے لئے نہ ہو، اپنی حکومت واقتدار قائم کر نے کے لئے نہ ہو۔بلکہ تمہارا مقصد صرف حق کی سر بلندی ہو،امن و سکون کا قیام ہو،ظلم وجبر کو ختم کرنا ہو،مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے آزاد کرنا ہو،راست وپاکبازی کو پھیلانا ہو،صداقت کا پر چم لہرانا ہو، جہالت و غباوت کی تاریکیوں کو ختم کرنا ہو،قافلئہ انسانیت کو برائیوں کے دلدل سے نکال کر اعمال صالحہ کی شاہراہ پر گامزن کرنا ہو وغیرہ ۔ انہیں مقاصد کو اللہ تعالی نے لفظ فی سبیل اللہ سے بیان فر مایا۔
آپ ﷺنے کس کے ساتھ جنگ کیا؟: ان اعلیٰ اور نیک مقاصد کے حصول کے لئے کن لوگوں سے جنگ کرنے کی اجازت دی گئی اس کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فر مایا:الذین یقاتلونکم۔ صرف ان سے جو تمہارے ساتھ لڑتے ہیں ۔تمہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے جھوٹے خواب دیکھتے رہتے ہیں اور اپنی طاقت کے بل بوتے پوری دنیا میں کالاراج چلانا چاہتے ہیں کمزوروں اور ناتوانوں کو اپنے جیسا انسان ماننے کے لئے تیا ر نہیں ہوتے ہیں اور دنیا کے امن وسکون کو غارت کرکے اسے جہنم بنانا چاہتے ہیں ۔ صرف انہیں سے لڑو۔
آپ ﷺ کے جنگ کے آداب: مگر اس شرط کے ساتھ کہ ’ لاتعتدوا‘تم حد سے آگے نہ بڑھو۔یعنی جب جنگ کا بازار گرم ہو، جذبات اپنے شباب پر ہو،انتقام کے شعلے بھڑک رہے ہوں،اس وقت بھی حد سے مت گزرو۔بچوں،بوڑھوں،عورتوں اور کسانوں کو قتل مت کرو(جبکہ یہ نہ لڑ رہے ہوں)کسی کو قتل کرنے کے بعد اس کے کان،ناک وغیرہ کاٹ کر اس کی شکل مت بگاڑو،کھیتیوں اور درختوں کو بر باد مت کرو،عبادت گاہوں اور ان کے مقدس مقامات کو منہدم مت کرو۔کیونکہ:ان اللہ لایحب المعتدین۔ بے شک اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کوپسند نہیں فر ماتا۔
آقائے کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے خود ان آداب کو بجا لایا اور اپنے غلاموں کو بھی اس کی تلقین فر مائی چنانچہ اس بارے میں متعدد احادیث میں سے کچھ انصاف پسند قارئین کے نذر ہیں۔
رحمت عالم ﷺنے مجاہدین کے ایک لشکر کو الوداع کہتے ہوئے یوں وصیت فر مائی: اللہ کا نام لے کر اور اس کے نام کی بر کت کے ساتھ سفر جہاد پر روانہ ہوجاؤ۔کسی بوڑھے شخص کو،کسی بچے کو،کسی عورت کو ہر گز قتل نہ کرنا۔اور خیانت نہ کرنا۔غنائم کو اکٹھا کرنااور حالات کو درست کرنے کی کوشش کرنا،دشمن کے ساتھ بھی احسان کرنا بے شک اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
ایک دوسرے لشکر کو رخصت کرتے ہوئے حضور نے آخری وصیت یوں فر مائی:اللہ کانام لے کر راہ خدا میں جہاد کے لئے روانہ ہوجاؤ۔اللہ کے دشمنوں کو تہ تیغ کرنا ۔خیانت نہ کرنا ،کسی سے دھوکہ نہ کرنا،کسی مقتول کی لاش کا مثلہ نہ کرنا،اور کسی بچے کو قتل نہ کرنا۔
سرور دوعالم ﷺنے اپنی امت کے سالار اعظم حضرت خالد بن ولید سے ارشاد فر مایا:بچوں کو قتل نہ کرنا اور نہ کسی مزدور کو قتل کرنا ۔ یہاں تک کہ حضور رحمت عالم ﷺاپنے صحابہ کو اس طرح وصیت فر مایا کرتے تھے کہ:وہ سر سبز کھیتوں کو برباد نہ کریں ،درختوں کو نہ کاٹیں ،کمزوروں،بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کریں ۔ان مردوں کو بھی قتل نہ کریں جو جنگ کے سلسلے میں کوئی رائے نہیں دیتے اور کسی طرح جنگ میں شرکت نہیں کرتے۔[ضیاء النبی،جلد۳؍ص:۲۸۵۔ ۲۸۶]
اب ذرا آپ اپنی آنکھیں بند کیجئے!اور سوچئے کہ اللہ کے رسول ﷺکے علاوہ کون ہے جو اپنے دشمن کی فوجوں کے ساتھ ایسا رحیمانہ و کریمانہ سلوک کرنے کی ھدایات دیا ہو یادیتا ہو؟اول تا آخر داستان جنگ وجدال کی پوری تاریخ کھنگا ل ڈالئے ۔آپ کو کوئی ایسا سپہ سالار نظر نہیں آئے گا۔یہ صرف اللہ کے اس محبوب بندے اور رسول ہی کی شان تھی کہ جس نے جنگ جیسی خوفناک چیز کو بھی رحم وکرم کا آئینہ دار بنادیا۔سچ فر مایا تھا :آقائے کریم ﷺنے کہ:انا نبی الرحمۃ انا نبی الملحمۃ۔میں رحمت کا پیغامبر ہوں۔میں جنگ کا علمبردار ہوں۔حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی جنگ بھی نوع انسانی کے لئے سراپا رحمت واحسان تھی۔کیا فتنہ و فساد کی آگ بجھانا،مظلوموں کو ظالموں کے چنگل سے آزاد کرنا،اور ایسے بدبخت لوگوں کے ہاتھ اور منھ میں لگام لگا کر دنیا میں امن وامان قائم کر نانوع انسانی کے لئے رحمت نہیں؟ضرور ہے۔
آپ تصور کر سکتے ہیں کہ : مسلمانوں کو جن سنگین حالات سے دوچار ہونا پڑا ، ان سب کے باوجود اگر آپ جنگ نہ کرتے تو پھر کیا ہوتا،دشمن آگے بڑھ کر ہر حق پرست کا گلا دبوچ دیتا ،ایک طبقہ ظالموں کے ظلم کی چکی میں پستا رہتا اور دوسرا طبقہ ان پر ظلم کرنے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتا رہتا اور آخر کاران حق پرستوں کو فنا کے گھاٹ اتاردیا جاتا یا ایک ایسے عقیدے کو جنہیں انہوں نے اپنی آزاد عقل وفہم کا استعمال کر کے اپنا یا تھا ترک کر دینا پڑتا اس طرح سے حریت فکر کی آزادی دنیا سے ختم کردی جاتی اور ہمیشہ کے لئے دنیا سے صدائے حق بلند کرنے والوں کو نیست ونابود کردیا جاتا۔
آپ اس قائد ورہنما کے بارے میں کیا کہیں گے جو فقط اپنے کو امن پسند اور صلح دوست کہلانے کی ہوس میں اپنے تمام ساتھیوں کو ظلم کی بھینٹ چڑھنے دیا اور پھر خود بھی ڈوبا اور اپنے ساتھیوں کو بھی لے ڈوبا ؟۔ ایسی غداری اپنی قوم کے ساتھ کوئی چیمبر لین تو کر سکتا ہے لیکن کوئی حضور رحمت عالم ﷺاور ان کے جانثاروں سے کوئی ایسی امید رکھے تو وہ خوفناک جہالت میں مبتلا ہے۔جس سے اسے فوراََ نکل آنا چاہئے۔
آج لوگ حضور رحمت عالم ﷺکی جنگوں پر چیں بجبیں ہیں۔انہیں اپنے دامن میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ انہوں نے جنگ کے نام پر انسانیت کو کیا تحفہ دیا ہے۔آپ صرف دو نوں جنگ عظیم کا حال ہی دیکھ لیجئے جو یورپ کے دانشوروں اور حکمرانوں کا عظیم کارنامہ ہے۔ان دونوں جنگوں میں مال ودولت ،پر امن شہریوں کی تباہی،ہزاروں بارونق شہر کی ویرانی اور دیگر تمام تر نقصانات کو چھوڑ کر صرف انسانی جانوں کا جو عظیم نقصان ہواوہی سن لیجئے۔اتحادی ممالک برطانیہ اورامر یکہ وغیرہ کا جانی نقصان ایک کڑوڑ چھ لاکھ پچاس ہزار ہے ۔فر یقین کا مجموعی جانی نقصان ڈیڑھ دو کروڑکے قریب ہے صرف روس کے پچھتر لاکھ فوجی مارے گئے ،جاپان کے پندرہ لاکھ پچاس ہزار فوجیوں نے اپنی قیمتی زندگی کو جنگ کی کالی دیوی کے چرنوں میں بھینٹ چڑھایا۔[انسائیکلو پیڈیا آف بریٹانیکا،جلد۲۳ ؍ص:۷۹۳، ایڈیشن : ۱۹۶۲۔بحوالہ ضیاء النبی،جلد سوم،ص: ۲۸۲]
ان عظیم جانی نقصانوں کے بدلے میں دنیا کو انہوں نے کیا دیا؟دیوار بر لن۔کمرتوڑ مہنگائی ،بے روزگاری ، بے حیائی ،اخلاق باختگی ۔ایسے وحشی اور درندہ صفت لوگ جب اس سراپا یمن و سعادت اور پیکر رحمت کی ذات اقدس پر انگشت نمائی کرتے ہیں جنہوں ایک عظیم مقصد کی خاطر جنگ کی اجازت دی کہ کوئی کسی پر ظلم نہ کرے،ہر ایک کو فکر کی آزادی حاصل ہو،تشدد اور طاقت کے بل بوتے کوئی کسی کو اپنا پسندیدہ دین چھوڑنے پر مجبور نہ کرے جنگ کی اجازت دی ۔وہ بھی اس طور پر کہ ذرا برابر حد سے تجاوز نہ ہونے پائے۔ تو شرم وحیاء بھی شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے۔



متعلقہ عناوین



رسول اکرم ﷺ بحیثیت افضل الخلق رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبِّ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبوبِ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت عبد کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت انسان کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت رحمۃ للعا لمین رسول اکرم ﷺ بحیثیت خاتم النبیین رسول اکرم ﷺ بحیثیت صادق القول و الوعد رسول اکرم ﷺ بحیثیت امین رسول اکرم ﷺ بحیثیت حلیم رسول اکرم ﷺ بحیثیت حق گو رسول اکرم ﷺ بحیثیت عالم غیب رسول اکرم ﷺ بحیثیت شارع رسول اکرم ﷺ بحیثیت جج رسول اکرم ﷺ بحیثیت فاتح رسول اکرم ﷺ بحیثیت امن پسند رسول اکرم ﷺ بحیثیت ماہر نفسیات



دعوت قرآن