رسول اکرم ﷺ کا صدقہ و خیرات



انبیائے کرام علیھم الصلوۃ والسلام پر اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ فر ض ہی نہیں کیا اس لئے آپ ﷺپر بھی زکوٰۃ فر ض نہ تھی۔[زرقانی جلد ،۸؍ص: ۹۰]
لیکن آپ ﷺکے صدقات و خیرات کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے پاس سونا چاندی ،تجارت کا کوئی سامان اورجانوروں کا کوئی ریوڑ وغیرہ رکھتے ہی نہیں تھے بلکہ جو کچھ بھی آپ کے پاس آتا سب راہ خدا میں مستحقین پر تقسیم فر ما دیا کرتے تھے ۔آپ ﷺکو اتنا بھی گوارہ نہ تھا کہ رات بھر مال ودولت کا تھوڑا سا حصہ بھی آپ کے گھر میں رہ جائے ۔
چنانچہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ خراج کی رقم اس قدر زیادہ آگئی کہ وہ شام تک تقسیم کرنے کے باوجود ختم نہ ہو سکی تو آپ ﷺ رات بھر مسجد ہی میں رہ گئے ۔جب حضرت بلا ل رضی اللہ عنہ نے آکر خبر دیا کہ:یا رسول اللہ ﷺ!ساری رقم تقسیم ہو چکی تو آپ ﷺنے اپنے مکان میں قدم رکھا۔[سنن ابو داؤد،کتاب الخراج والفئی والامارۃ،باب فی الامام یقبل ھدایا المشر کین ،حدیث: ۳۰۵۵]
آپ ﷺ نے جس طرح خود راہ خدا میں اپنا مال لٹایا اسی طرح اپنی امت کو بھی تر غیب دی اور اس کی بڑی فضیلتیں بیان فر مائی ۔ چنانچہ ان میں سے کچھ آپ بھی پڑ ھیں تا کہ آپ کے اندر راہ خدا میں مال لٹانے کا جذبہ پیدا ہو۔
حضرت عدی بن حا تم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :رسول اللہ ﷺنے دوزخ کا تذکرہ فر مایااور ناپسندیدگی سے منھ پھیر لیا ،پھر فر مایا کہ:دوزخ سے ڈرواور پھر نا پسند یدگی سے منھ پھیر لیا جس سے ہم نے یہ گمان کیا کہ آپ ﷺ دوزخ کو دیکھ رہے ہیں ،پھر فرمایا دوزخ سے بچوخواہ کھجور کا ایک ٹکڑا(صدقہ )کرکے اور جس کو کھجور کا ٹکڑا بھی نہ مل سکے تو اچھی بات کہے(کیو نکہ یہ بھی ایک قسم کا صدقہ ہے)[مسلم،حدیث: ۱۰۱۶])
حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ:مجھ سے رسول اللہ ﷺنے فر مایا:خرچ کرو اور گن گن کر نہ رکھو ورنہ اللہ تعالی تمہیں بھی گن گن کر دے گا اور جمع مت کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے معاملے میں جمع کر کے رکھے گا۔[مسلم،حدیث: ۱۰۲۹]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:قیامت کے دن سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ سایہ نصیب فر مائے گا اور اس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔۱)انصاف کرنے والا بادشاہ۔۲)وہ نو جوان جس نے اللہ کی عبادت میں اپنی جوانی گزاری۔۳)وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگارہتا ہے۔۴)وہ دو شخص جو اللہ کی محبت میں آپس میں ملیں اور اللہ کی محبت میں ایک دوسرے سے جدا ہوئے۔۵)وہ شخص جسے کسی خوبصورت مالدار عورت نے گناہ کی دعوت دی تو اس نے کہا کہ:میں اللہ سے ڈرتا ہوں ۔۶)وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے یہاں تک کہ بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا؟۔۷)اور وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرے اور رونے لگے ۔ [مسلم،حدیث: ۱۰۳۱]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ایک شخص رسول اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ:یا رسول اللہ ﷺکون سے صدقے میں زیادہ ثواب ہے ؟آپ ﷺ نے فرمایا:تم اس وقت صدقہ کرو جب کہ تم تندرست ہو،حریص ہو، فقر کا خوف ہواور مالداری کی امید ہو ۔صدقہ کرنے میں اتنی تا خیر نہ کرو کہ تمہاری روح تمہارے حلق تک پہونچ جائے اور پھر تم کہو کہ :اتنا فلاں کا ہے،اتنا فلاں کا ہے۔(کیو نکہ اب تم کہو یا نہ کہو)وہ تو فلاں کا ہو چکا۔[مسلم،حدیث: ۱۰۳۲]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا کہ:جس شخص نے اپنے مال میں سے ایک جوڑا اللہ کی راہ میں خرچ کیا تو جنت میں اس کے لئے ندا کی جا ئیگی کہ اے اللہ کے بندے یہ نیکی ہے!پس جو شخص نمازیوں میں سے ہوگا اس کو باب الصلوۃ سے پکارا جائے گااور جو مجاہدوں میں سے ہو گا اس کو باب الجہاد سے پکا راجائے گا اور جو صدقہ دینے والوں میں سے ہو گا اس کو باب الصدقہ سے پکا را جائے گا اور جو روزہ داروں میں سے ہو گا اس کو باب الریان سے بلایا جائے گا ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ :یا رسول اللہ ﷺ!کسی شخص کو ان تمام دروازوں سے پکارے جانے کی ضرورت تو نہیں ہے پھر بھی کیا کوئی ایسا شخص ہو گا جس کو (جنت میں )ان تمام دروازوں سے پکار کر بلایا جائے گا ؟رسول اکرم ﷺنے فر مایا کہ:ہاں !اور مجھے امید ہے کہ تم ان میں سے ہو گے۔[مسلم،حدیث: ۱۰۲۷]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :رسول اللہ ﷺنے فر مایا :جس نے راہ خدا میں ایک جوڑا خرچ کیا اسے جنت کے ہر دروازے کے پہرہ دار (جنت میں جانے کے لئے)بلائیں گے کہ اے فلاں اِدھر آؤ۔(یعنی ادھر سے آکر جنت میں دا خل ہو جاؤ)۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ:یا رسول اللہ ﷺ!ایسے شخص پر تو کوئی حرج نہیں ہے ۔آپ ﷺنے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فر مایا کہ:مجھے امید ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو گے۔[مسلم،حدیث: ۱۰۲۷]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایاکہ:بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ان دو شخصوں کی طرح ہے جن پر لوہے کی دو زرہیں ہوں جب صدقہ دینے والا صدقہ کا ارادہ کرتا ہے تو زرہ کشادہ ہو جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے نشانات مٹا دیتی ہے اور جب بخیل صدقہ کا ارادہ کرتا ہے تو وہ زرہ اس پر تنگ ہو جاتی ہے ۔اس کے ہاتھ اس کے گلے میں پھنس جا تے ہیں اور ہر حلقہ دوسرے میں گھس جاتے ہیں ۔راوی کہتے ہیں کہ:میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے فر مایا:بخیل اسے کشادہ کرنا چاہتا ہے مگر وہ کشادہ نہیں ہوتی۔[مسلم،حدیث: ۱۰۲۱]
اس مثال کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ دینے والا جب صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا دل کشادہ ہو جاتا ہے اور ہاتھ کھل جاتے ہیں اور اس کے گناہ مٹ جاتے ہیں اور بخیل کا دل تنگ ہو جاتا ہے اور اس کے ہاتھ سکڑ جاتے ہیں اور وہ حقیقت سے بے خبر ہونے کی وجہ سے چاہ کر بھی دل کھول کر صدقہ نہیں کر پاتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو بخالت سے بچائے اور دل کھول کر اپنی راہ میں صدقہ وخیرات کرنے کی تو فیق عطا فر مائے۔آمین بجاہ سید المر سلین صلی اللہ علیہ وسلم۔



متعلقہ عناوین



رسول اکرم ﷺکی سخا وت وفیاضی رسول اکرم ﷺکی شان زہد وقناعت رسول اکرم ﷺکا طریقہ تعلیم رسول اکرم ﷺ کی نمازیں رسول اکرم ﷺکے روزے رسول اکرم ﷺ کا حج اور عمرہ رسول اکرم ﷺکے خطوط رسول اکرم ﷺکے خطبات رسول اکرم ﷺکی دعائیں رسول اکرم ﷺکی وصیتیں اور نصیحتیں



دعوت قرآن