زکوٰۃ کی اہمیت وفضیلت



زکوٰۃ کے لغوی معنی پاک ہونا، بڑھنا اور نشوونما پانا کے ہیں۔ یہ مالی عبادت ہے۔ یہ محض ناداروں کی کفالت اور دولت کی تقسیم کا ایک موزوں ترین عمل ہی نہیں بلکہ ایسی عبادت ہے جو قلب او ررُوح کا میل کچیل بھی صاف کرتی ہے۔ انسان کو اللہ کا مخلص بندہ بناتی ہے۔ نیز زکوٰۃ اللہ کی عطا کی ہوئی بے حساب نعمتوں کے اعتراف اور اس کا شکر بجا لانے کا بہترین ذریعہ ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْهُ لَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ- وَ اللّٰهُ شَكُوْرٌ حَلِیْمٌ۔
ترجمہ: اگر تم اللہ کو اچھا قرض دو گے وہ تمہارے لیے اس کے دونے کردے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ قدر فرمانے والا حلم والا ہے۔[سورہ تغابن،آیت:۱۷]
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَااَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَااَذًىۙ- لَّهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ- وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ۔
ترجمہ : وہ لوگ جو اپنامال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر دے کر نہیں احسان رکھتے ہیں اور نہیں تکلیف دیتے ہیں ان کا اجروثواب ان کے رب کے پاس ہے اور [قیامت کے دن] نہ انہیں کوئی خوف ہوگا اور نہیں وہ غمگین ہوں گے۔ [سورہ بقرہ،آیت:۲۶۱]
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ
ترجمہ: تم ہرگز بھلائی حاصل نہیں کر سکتے جب تک اس میں سے نہ خرچ کرو جس سے تم محبت کرتے ہو۔[آل عمران،آیت:۹۲]
زکوۃ دینے والے پر رحمتِ الٰہی کی برسات ہوتی ہے۔ سورۃُ الاعراف میں ہے :
وَ رَحْمَتِیْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَیْءٍ- فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ[پ۹،الاعراف۱۵۶]
ترجمہ: اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لئے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں جو لوگ زکوٰۃ ادا نہیں کرتے اُن کے لئے اللہ تعالی کاارشاد ہے:
وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍۙ یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ۔
ترجمہ: وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اُسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے،انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنادو،جس دن جہنم کی آگ میں تپائے جائیں گے اور ان سے اُن کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں داغی جائیں گی[اور ان سے کہا جائے گا] یہ وہ ہے جو تونے اپنے نفس کے لئے جمع کیا تھا تو اب چکھو جو جمع کرتے تھے۔[سورہ توبہ،آیت:۳۴/۳۵]
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَا اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَیْرًا لَّهُمْ- بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ-سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ۔
ترجمہ: جو لوگ بخل کرتے ہیں اس کے ساتھ جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے۔وہ ہرگز گمان نہ کریں کہ یہ ان کے لئے اچھا ہے۔بلکہ یہ ان کے لئے بُرا ہے۔اس چیز کا قیامت کے دن ان کے گلے میں طوق ڈالا جائے گا جس کے ساتھ بخل کیا۔[سورہ آل عمران،آیت:۱۸۰]
زکوٰۃ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں جا بجا اللہ تعالیٰ نے نماز کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا اور احادیث مبارکہ میں آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ دینے کی فضیلت کے ساتھ نہ دینے کے نقصانات سے اپنی امت کو آگاہ فرمایا۔اس سلسلے میں چند احادیث پیش ہیں۔
حدیث:حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمیں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے تین دفعہ فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! پھر آپ نے سر جھکا لیا۔ ہم میں سے ہر شخص بھی سر جھکا کر رونے لگا۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ نے کس چیز پر قسم کھائی ہے؟ پھر آپ نے سر مبارک اٹھایا تو چہرے میں خوشی کے آثار تھے اور آپ کی خوشی ہمارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب تھی، پھر آپ نے فرمایا: جو شخص پانچ فرض نمازیں پڑھے اور رمضان کے روزے رکھے، زکاۃ ادا کرے اور سات کبیرہ گناہوں [شرک، جادو، ناحق قتل، سود خوری، یتیم کا مال کھا جانا، جہاد سے بھاگنا اور پاک دامن مومنہ عورتوں پر تہمت لگانا ۔ ]سے پرہیز کرے، اس کے لیے جنت کے سب دروازے کھول دیے جائیں گے اور اسے کہا جائے گا: سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جا۔[سنن نسائی حدیث نمبر: ۲۴۴۰]
حدیث:حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اچھی طرح وضو کرنا نصف ایمان ہے۔ الحمد للہ کہنا میزان (ترازو) کو بھر دیتا ہے۔ سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہنا آسمان وزمین کو بھر دیتے ہیں۔ نماز نور ہے، زکاۃ (ایمان کی) دلیل ہے، صبر روشنی ہے اور قرآن مجید حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف۔[سنن نسائی حدیث نمبر۲۴۳۹]
حدیث:حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا،آپ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے آپ نے مجھے آتا دیکھاتوفرمایا: 'رب کعبہ کی قسم! قیامت کے دن یہی لوگ خسارے میں ہوں گے۔ میں نے اپنے جی میں کہا: شاید کوئی چیز میرے بارے میں نازل کی گئی ہو۔میں نے عرض کیا : کون لوگ؟ میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں؟تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہی لوگ جوبہت مال والے ہیں سوائے ان لوگوں کے جوایسا ایساکرے- آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے لپ بھرکراپنے سامنے اوراپنے دائیں اوراپنے بائیں طرف اشارہ کیا- پھرفرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جوبھی آدمی اونٹ اور گائے چھو ڑ کرمرااوراس نے اس کی زکاۃ ادانہیں کی تو قیامت کے دن وہ اس سے زیادہ بھاری اور موٹے ہوکر آئیں گے جتناوہ تھے اور اسے اپنی کھروں سے روندیں گے، اوراپنی سینگوں سے ماریں گے، جب ان کاآخری جانور بھی گزرچکے گاتو پھر پہلالوٹادیا جائے گا [یعنی روندنے اور سینگ مارنے کا سلسلہ برابرچلتا رہے گا۔] یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے ۔ [ترمذی،حدیث:۶۱۷]
حدیث:حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ دوعورتیں رسو ل اللہ ﷺ کے پاس آئیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے دوکنگن تھے، توآپ نے ان سے فرمایا: 'کیا تم دونوں اس کی زکاۃ اداکرتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں، تورسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: ' کیا تم پسند کروگی کہ اللہ تم دونوں کو آگ کے دوکنگن پہنائے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: 'توتم دونوں ان کی زکاۃ اداکرو۔[جامع ترمذی حدیث نمبر: ۶۳۷]
حدیث:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جسے اللہ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی توقیامت کے دن اس کا مال نہایت زہریلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کرلے گا۔ اس کی آنکھوں کے پاس دوسیاہ نقطے ہوں گے۔ جیسے سانپ کے ہوتے ہیں‘ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں سے اسے پکڑلے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال اور خزانہ ہوں۔ اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی “ اور وہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے وہ اس پر بخل سے کام لیتے ہیں کہ ان کا مال ان کے لیے بہتر ہے۔ بلکہ وہ برا ہے جس مال کے معاملہ میں انہوں نے بخل کیا ہے۔ قیامت میں اس کا طوق بناکر ان کی گردن میں ڈالا جائے گا۔[صحیح بخاری حدیث :۱۴۰۳]
حدیث:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے مال کا حق [زکاۃ ادا نہ کرتا ہو تو ]قیامت کے دن وہ مال اس کے گلے میں گنجے سانپ کی صورت میں طوق بنا دیا جائے گا۔ وہ اس سے بھاگے گا، مگر وہ اس کے پیچھے دوڑے گا، پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے اس کی تصدیق کے لیے یہ آیت پڑھی: [وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ… الخ]"جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال میں بخل کرتے ہیں، وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ مال ان کے لیے بہتر ہے، بلکہ وہ ان کے لیے بدتر ہے۔ اور جس مال کے ساتھ انھوں نے بخل کیا، قیامت کے دن وہ ان کے گلے کا طوق بنایا جائے گا"۔[ سنن نسائی حدیث نمبر: ۲۴۴۳]
[گنجا سانپ۔سانپ کے جسم پر توبال ہوتے ہی نہیں، لہٰذا گنجے سے مراد یہ ہے کہ کثرت زہر یا درازی عمر کی وجہ سے اس کے سر پر سے چمڑا تک اڑ چکا ہوگا۔النھایۃ لابن الاثیر]
حدیث:حفص بن میسرہ صنعانی نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی کہ ان کو ابو صالح ذکوان نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی سونے اور چاندی کا مالک ہو اور ان میں سے(یا ان کی قیمت میں سے) ان کا حق(زکاۃ) ادا نہیں کرتا تو جب قیامت کا دن ہوگا(انھیں) اس کے لئے آگ کی تختیاں بنا دیا جائے گا اور انھیں جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور پھران سے اس کے پہلو، اس کی پیشانی اور اس کی پشت کو داغا جائےگا،جب وہ(تختیاں)پھر سے(آگ میں) جائیں گی،انھیں پھر سے اس کے لئے واپس لایا جائےگا،اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے(یہ عمل مسلسل ہوتا رہے گا)حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا،پھر وہ جنت یا دوزخ کی طرف اپنا راستہ دیکھ لےگا۔[ صحیح مسلم حدیث :۲۲۹۰]



متعلقہ عناوین



زکوٰۃ کے فرض ہونے کی شرطیں؟ زکوٰۃ کے نصاب کن اموال میں زکوٰۃ ہے اور کتنا ہے؟ زکوٰۃکے مصارف صدقہ فطر



دعوت قرآن