شوہر،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں



یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بیوی نے اپنے شوہر سے ایسی محبت نہ کی جیسی محبت ازواج مطہرات نے رسول اللہ ﷺ سے کی اور نہ ہی کوئی شوہر اپنی بیویوں کی نظر میں اتنا محبوب بنا جتنے رسول اللہ ﷺاپنی ازواج مطہرات کی نظر میں محبوب تھے۔اس میں کچھ شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺکے گرد اس حلقئہ محبت کا سبب آپ ﷺ کی پاکیزہ سیرت اور وہ اصول ہیں جن کے مطابق آپ ﷺ نے اپنی زندگئی مبارک گزاری۔
آج کے اس نازک ترین دور میں جبکہ بے شمار گھر میاں بیوی کے آپسی اختلافات اور تلخیوں کے سبب جہنم بن چکے ہیں ۔ضرورت ہے کہ ہم مصطفی جان رحمت ﷺ کی پاکیز ہ سیرت کو اپنائیں جو ہمارے لئے ایک بہترین نمونہ اور باعث فلاح و نجات ہے۔
رسول اللہ ﷺ کا اپنی بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت: [۱] ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :ایک بار میں اور رسول اللہ ﷺ نے دوڑ لگایا تو میں آگے نکل گئی پھر جب میرا وزن کچھ بڑھ گیا تو پھر ایک بار ہم نے دوڑ لگایا تو رسول اللہ ﷺ ہم سے آگے نکل گئے،تو آپ ﷺ نے مجھ سے فر مایاکہ:اے عائشہ!یہ اس دن کا بدلہ ہے۔ [سنن ابودائود،حدیث: ۲۵۷۸]
حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے کوئی کسی معاملے میں آگے نہیں ہوسکتا تھا مگر پہلی بار آپ ﷺ نے صرف حسن معاشرت کے طور پر جان بوجھ کر پیچھے رہ گئے۔
[۲] ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ:میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تو کبھی میں پہلے پانی اٹھا لیتی اور کبھی رسول اللہ ﷺ۔[بخاری،حدیث: ۲۶۱]
[۳] ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :میں ایک پیالے سے پانی پیتی تو رسول اللہ ﷺ اپنا لب مبارک اسی جگہ رکھ کر پانی پیتے جہاں سے میں پیتی۔[مسلم،حدیث: ۳۰۰]
[۴] ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا پہلے یہودیہ تھیں ایک دفعہ دوران گفتگو ازواج مطہرات نے انہیں یہودیت پر عار دلاتے ہوئے کہا:اے یہودی کی بیٹی،حضرت صفیہ نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ سے کی تو آپ ﷺ نے ان کی دلجوئی کے لئے ارشاد فرمایا:تم نے ان سے یہ کیوں نہ کہا کہ تم مجھ سے بہتر کیسے ہو سکتی ہو جبکہ محمد(ﷺ)میرے شوہر ہیں ہارون(علیہ السلام)میرے باپ اور موسیٰ(علیہ السلام)میرے چچا ہیں۔یہ سن کر حضرت صفیہ آپ ﷺ کے پاس سے اس حا ل میں اٹھیں کہ وہ انتہائی خوش اور پر مسرت تھیں۔ایسا کیوں نہ ہوتا؟آخر ان کے شوہر حضرت محمد ﷺ جو تھے۔نہ جانے کتنی بار اس بات کو دوہرا کر وہ اپنے آپ میں مسکرائی ہوں گی۔[نور سرمدی فخر انسانیت حضرت محمد ﷺ،جلد:۱؍ص:۳۹۴،]
کچھ لوگ اپنی بیویوں سے ہر وقت آمادۂجنگ رہتے ہیں بات بات میں انہیں ڈانٹنا ،مارنا ،پیٹنا،ناراض ہونا انہیں ان کی محکومیت کا احساس دلانا انہیں صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھنا وغیرہ ان کے روز مرہ کا معمو ل ہوتا ہے۔انہیں حضور ﷺ کی ان احادیث کو بغور پڑھنا چاہئے۔رسول اللہ ﷺ نے فر مایا:کامل ایمان والے مومن وہ ہیں جو اپنے اخلاق میں اچھے ہوں اور تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھا ہے۔[ترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاء حق المرأۃ علی زوجھا،حدیث: ۱۲۶۲]
حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:میں نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا کہ:یارسول اللہ ﷺ!ہم میں سے کسی پر اس کی بیوی کا حق کیا ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا:جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ،جب تم پہنو یا کماؤتو اسے بھی پہناؤ،اس کے منھ پہ نہ مارو،اس سے برے لفظ نہ کہو،اور اسے خود سے جدا نہ کرو مگر(ضرورت ہو تو)گھر ہی میں۔[ابوداود،حدیث: ۲۱۴۲ ]
عورتوں کی فطرت وجبلت کو مد نظر رکھتے ہوئے آقائے کریم ﷺنے ان کے تعلق سے کچھ خاص وصیتیں مردوں کو فر مائی جنہیں ہر شوہر کے لئے جاننا ضروری ہے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ:عو رت ’پسلی‘سے پیدا کی گئی ہے۔وہ سیدھا کرنے سے سیدھی نہیں ہوگی۔اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اس کے ٹیڑھا پن کے باوجود اس سے فائدہ اٹھاؤ۔اگر تم اس کو سیدھا کرنے کے چکر میں لگے تو تم اس کو توڑ دوگے۔اور اس کا توڑنا طلاق ہے۔[صحیح مسلم،حدیث: ۱۴۶۸]
نیز فر مایا کہ:جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے ۔وہ جب کسی چیز کو دیکھے تو اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو ،کیو نکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا اوپر کا حصہ زیادہ ٹیڑھا ہوتا ہے اگر تم اس کو سیدھا کرنے لگوگے تو توڑدوگے اور اگر تم اس کو بالکل چھوڑ دوگے تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی۔[صحیح مسلم،حدیث: ۱۴۶۸]
اور ارشاد فرمایا کہ:کوئی مسلمان مرد ،کسی مسلمان عورت سے دشمنی نہ رکھے۔اگر وہ کسی کی کسی ایک عادت سے ناخوش ہوتا ہے تو اس کی دوسری عادت سے خوش ہوجائے۔[مسلم،حدیث: ۱۴۶۹]
آپ ﷺ کا اپنی بیویوں کے بارے میں عدل و انصاف: آپ ﷺ پر اپنی بیویوں کے بارے میں باری مقرر کرنا ضروری نہ تھا مگر اس کے باوجود آپ ﷺ نے محبت و الفت کو برقرا ر رکھنے کے لئے اپنی ازواج مطہرات کے درمیان باری مقرر فر مایا تھا جس کی آپ ﷺ پابندی کرتے تھے اور کبھی کسی وجہ سے ایک کے پاس تشریف لے جاتے تو پھر ساری ازواج مطہرات کے پاس خبر گیری کے لئے تشریف لے جاتے ۔آپ ﷺ کے اسی بے مثال محبت کا نتیجہ تھا کہ ازواج مطہرات میں سے ہر ایک اپنے آپ کو آپ ﷺکے سب سے زیادہ قریب سمجھتی تھیں۔
جب آپ ﷺ سفر میں تشریف لے جاتے تو خاص اپنی مرضی سے کسی کو لے جا سکتے تھے مگر آپ ﷺ قرعہ اندازی فر ماتے اور جن کانام نکلتا ان کو لے جاتے ۔زندگی بھر آپ ﷺ انہیں اصولوں پر قائم رہے یہاں تک کہ زندگی کے آخر لمحات میں جب کہ آپ ﷺ کی طبیعت بڑی ناساز تھی اس وقت بھی اس کا مکمل خیا ل رکھا اورجب سب کے پاس جانے کی طاقت نہ رہی تو آپ ﷺ نے اپنی ازواج مطہرات سے حضرت عائشہ کے کمرے میں رہنے کی ’اجازت مانگی‘ جسے سارے ازواج نے بخوشی قبول فر مالیا۔
اور ان سب کے باوجود آپ ﷺ اپنے رب کریم سے دعا مانگتے کہ:اے میرے مولیٰ!جو برابری میرے بس میں تھی وہ میں نے کیا لیکن جس بات پر میں قادر نہیں اس پر مجھے ملامت نہ فرما۔ [نسائی،کتاب عشرۃ النسائ،حدیث:۳۹۴۳]
آپ ﷺنے اپنی امتیوں کو بھی اپنی بیویوں کے بارے میں ا نصاف کرنے کا درس دیا اور انصاف نہ کرنے کے نقصانات صاف لفظوں میں ارشاد فر مایا:چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:نبی ﷺنے فر مایا:جس کے پاس دو بیوی ہو اور وہ ان میں سے ایک کو چھوڑ کر دوسری کی طرف مائل ہوتو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے بدن کا ایک حصہ لٹک رہا ہوگا۔ [نسائی، حدیث: ۳۹۴۲]
آپ ﷺ کا اپنے گھر کے اندر کی زندگی: حضرت اسود کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ ﷺ اپنے گھر کے اندر کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ:آپ ﷺ اپنے کام کاج کرتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ مسجد تشریف لے جاتے۔ [بخاری،حدیث: ۶۰۳۹]
دوسری روایت میں قدرے تفصیل سے آیا کہ:آپ ﷺصبح وشام اجتماعی طور پر اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ جلوہ گر ہوتے تو صبح کے وقت انہیں دینی مسائل سکھاتے اور شام کے وقت ان کے ساتھ کچھ دوسر ی گفتگو کرتے اور کبھی کبھی انہیں حکمت سے بھرپور واقعات بھی سناتے ۔اس کے علاوہ آپ ﷺ اپنے کپڑوں میں خود ہی پیوند لگاتے،بکری دوھ لیتے اور اپنے گھوڑوں کے نعل ٹھوک لیتے۔ آپ ﷺ کے گھر کی فضا میں تقویٰ اور خوف خدا کارنگ غالب تھا اور یہ رنگ آپ کے گھر کی ہر حرکت میں پایا جاتا تھا ۔آپ ﷺ فرائض کے علاوہ دیگر نمازیں اپنے گھر کے اندر ہی ادا فر ماتے تھے اور نمازوں میں آپ ﷺ دل کی اتاہ گہرائی سے اللہ رب العزت کی طرف متوجہ ہوتے اور اپنے رب کریم کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرتے اور روتے ۔رات کی تاریکیوں میں بیدار ہو کر اپنے رب کے سامنے گڑ گڑاتے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کتنی دفعہ آپ کو اپنے بستر سے غائب پاتیں پھر دیکھتیں کہ آپ ﷺ حالت رکوع یا سجدہ میں خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ تعالی کی تسبیح کررہے ہیں تو آپ فرماتیں ۔یارسول اللہ ﷺ !میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو آپ اس حال میں ہیں اور میں کیا سوچ رہی تھی ۔[نسائی،حدیث: ۳۹۶۱]
اور رات میں آپ ﷺ اپنی ازواج مطہرات کو نماز کے لئے جگاتے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات میں نماز ادا فرماتے اور جب وتر پڑھنے لگتے تو فرماتے:اے عائشہ! اٹھو اور وتر پڑھو۔[بخاری،حدیث: ۵۱۲]
تر بیتی پہلو سے آپ ﷺ کی ان کیفیات کا گھر والوں پر ایک اچھا اثر پڑنا فطری بات تھی یہی وجہ تھی کہ ظاہری اور دنیاوی اعتبار سے تنگی کے باوجود بھی ازواج مطہرات اس گھر میں رہنے کو اپنے لئے پوری دنیا پر حکمرانی کرنے سے بہتر خیال کرتی تھیں۔
آپ ﷺنے اپنی امتیوں کو بھی اس بات پر ابھارا کہ وہ رات کی تاریکی میں خود بھی نماز پڑھے اور اپنی بیویوں سے بھی کہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اللہ اس مرد پر رحم فر مائے جو رات کو نماز پڑھنے کے لئے اٹھے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے ۔اگر وہ اٹھنے سے انکار کرے تو اس کے منھ پہ پانی کے چھینٹے مارے۔اللہ اس عورت پر رحم فر مائے جو رات کو نماز پڑھنے کے لئے اٹھے اور اپنے شوہرکو بھی جگائے ۔اگر وہ اٹھنے سے انکار کرے تو اس کے منھ پہ پانی کے چھینٹے مارے۔[سنن ابودائود، حدیث:۱۳۰۸،نسائی،حدیث:۱۶۰۹،ابن ماجہ،حدیث: ۱۳۳۶]
ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:جب کوئی شخص رات کو اپنی بیوی کو جگائے پھر دونوں نماز پڑھیں تو ان دونوں کو اللہ کو یاد کرنے والے مردوں اور یاد کرنے والی عورتوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔[سنن ابو داود،حدیث: ۱۳۰۹]
آخری بات: ایک خوشگوار ازدواجی زندگی اسی وقت کامیابیوں سے ہم کنار ہو سکتی ہے جب کہ ہم شادی کے وقت مصطفی جان رحمت ﷺکے ارشادات کے آئینے میں بیوی کا انتخاب اور دوسرے امور کو انجام دیں اور شادی کے بعد آپ ﷺ کی سیرت ِ پاک کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔
کیو نکہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فر مایاکہ:الدنیا متاع وخیر متاع الدنیا المرأۃ الصا لحۃ۔دنیا ایک سامان ہے اور دنیا کی بہترین سامان نیک عورت ہے۔[مسلم،کتاب الرضاع۔حدیث: ۱۴۶۷]
بعض دفعہ عورتوں کی طرف سے نازیبا بلکہ ظالمانہ سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُس صورت میں اگر شوہر صبر کا دامن تھامے تو یقینا اسے اللہ کی رضا حاصل ہوگی ۔کیونکہ فر مان باری تعالیٰ ہے:بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔[سورہ بقرہ]
اور اگر مارے پیٹے تو اس کی بھی اجازت ہے مگر چہرے پر نہ مارے،بُرے اور گندے الفاظ استعمال نہ کرے اور حد سے بالکل تجاوز نہ کرے ورنہ وہ خود گرفت میں آجائے گا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضور کی سیرت مبارکہ اپنانے کی تو فیق عطا فر مائے۔آمین۔



متعلقہ عناوین



بیٹا ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں باپ،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں مالک،سیرت مصطفیﷺ کے آئینے میں بھائی ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں رشتہ دار ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں پڑوسی،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مہمان اور میزبان،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مسافر،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مدد اور تعاون،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں کسب و تجارت،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں دعوت وتبلیغ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں ادائیگئی حقوق،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں



دعوت قرآن