قسم کھانا جائز ہے مگر جہاں تک ہو سکے کمی بہتر ہے اور بات بات پر قسم نہ کھانی چاہئے کچھ لوگ قسم کو تکیہ کلام بنالیتے ہیں اور بات بات پر قسم کھا تے رہتے ہیں اور یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ بات سچی ہے یا جھوٹی یہ سخت معیوب ہے۔ اور غیر خدا کی قسم مکروہ ہے اور شریعت میں ایسی قسموں کا کوئی اعتبار بھی نہیں یعنی اس کے توڑنے سے کفارہ لازم نہیں ہوتا۔[بہار شریعت]
قسم کے اقسام اور اس کی تعریف: قسم کی تین قسمیں ہیں۔۱:غموس۔۲:لغو۔۳:منعقدہ۔
اگر کسی ایسی چیز کے متعلق قسم کھائی جو ہو چکی ہے یا اب ہے یا نہیں ہوئی یا نہیں ہے مگر وہ قسم جھوٹی ہے۔ مثلاقسم کھایا کہ فلاں شخص آیا اور وہ اب تک نہیں آیا ۔یا قسم کھائی کہ نہیں آیا اور وہ آگیا ہے ۔یا قسم کھائی کہ فلاں شخص یہ کام کر رہاہے اور حقیقت میں وہ کام نہیں کر رہا ہے ۔ یا قسم کھائی کہ یہ پتھر ہے حالانکہ حقیقت میں وہ پتھر نہیں ہے غر ض یہ کہ اس طرح کی جھوٹی قسم کی دو صورتیں ہیں ۔جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی مثلا جس کے آنے کے بارے میں قسم کھایا تھا وہ خود بھی جانتا تھا کہ نہیں آیا ہے تو ایسی قسم کو شریعت کی زبان میں ’ غموس ‘کہتے ہیں ۔اور اگر اپنے خیال سے تو اس نے سچی قسم کھائی تھی مگر حقیقت میں وہ جھوٹی تھی مثلا جانتا تھا کہ فلاں نہیں آیا اور قسم بھی کھایا کہ نہیں آیا مگر حقیقت میں وہ آگیا تو ایسی قسم کو’ لغو ‘ کہا جاتا ہے ۔اور آنے والے زمانے کے لئے قسم کھائی مثلا خدا کی قسم !میں یہ کام کروں گا،یا نہیں کروں گا۔تو اس کو "منعقدہ" کہتے ہیں۔[ایضا]
قسموں کے احکام:قسم غموس کھانے والا سخت گنہگار ہے اس پر توبہ واستغفار ضروری ہے کیو نکہ اس نے جان بو جھ کر جھوٹ بولا جو کہ بڑا گناہ ہے ۔ مگر کفارہ لازم نہیں ۔لغو میں گناہ بھی نہیں اور منعقدہ میں اگر قسم توڑے گا تو اس پر کفارہ لازم ہوگا اور بعض صورتوں میں گنہگار بھی ہوگا۔[ایضا]
کن قسموں کو پورا کرنا ضروری ہے اور کن کو نہیں؟بعض قسمیں ایسی ہیں کہ ان کو پورا کرنا ضروری ہے مثلا ایسے کام کے کرنے کی قسم کھائی جس کا بغیر قسم کھائے بھی کرنا ضروری تھا مثلا نماز پڑ ھنے کی قسم کھائی یا گناہوں سے بچنے کی قسم کھائی تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے ۔ اور بعض قسموں کو توڑنا ضروری ہے مثلا کسی نے قسم کھائی کہ میں نماز نہیں پڑ ھوں گا یا اپنے ماں باپ سے بات نہیں کروں گا وغیرہ تو قسم توڑدے اور کفارہ ادا کرے۔تیسری یہ کہ اس کا توڑنا مستحب ہے مثلا کسی چیز کی قسم کھائی اور بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے علاوہ میں بہتری ہے تو قسم توڑدے اور وہ کرے جو زیادہ بہتر ہے ۔اور کفارہ دے دے۔
چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ :جس شخص نے کسی کام کی قسم کھائی پھر اس کے خلاف کو بہتر خیال کیا وہ اس بہتر کام کو کرے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے ۔[بخاری ،حدیث :۶۶۲۲۔صحیح مسلم،حدیث: ۱۶۵۰]
چوتھی جائز کام کی قسم کھائی یعنی ایسے کام کی جس کا کرنا اور نہ کرنا برابر ہے جیسے قسم کھائی کہ پان نہیں کھاؤں گاتو ایسی قسموں کا پورا کرنا افضل ہے ۔اللہ تعالی نے ارشاد فر مایا کہ:اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔[القرآن]
قسم کب صحیح ہوتی ہے اور کب نہیں؟اللہ تعالی کے جتنے نام ہیں ان میں سے جس نام کے ساتھ بھی قسم کھائی جائے گی قسم ہو جائے گی۔اسی طر ح جن صفتوں کے ساتھ قسم کھائی جاتی ہے مثلا خدا کی عزت وجلا ل کی قسم ،اس کی کبر یائی کی قسم،اس کی بزرگی کی قسم،قرآن کی قسم،کلام اللہ کی قسم وغیرہ ان الفاظ سے بھی قسم ہو جائے گی۔یعنی اگر توڑے گا تو کفارہ دینا پڑے گا۔اسی طر ح سے اگر کسی نے کہا کہ فلاں چیز مجھ پر حرام ہے ۔تو اس کے کہہ دینے سے وہ حلال چیز حرام نہ ہو گی مگر اب اس چیز کا استعمال کرے گا تو کفارہ دینا پڑے گا یعنی کہ یہ بھی قسم ہے۔
اللہ کے علاوہ کی قسم ،قسم نہیں ہے مثلا تمہاری جان کی قسم ،تمہارے سر کی قسم ،اللہ اور اس کے رسول کی قسم وغیرہ یعنی اس صورت میں کفارہ نہیں۔ رسول اکرم ﷺنے اللہ کے علاوہ کی قسم کھانے سے منع فر مایا:چنانچہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: نبی اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:جو شخص قسم کھانے کا ارادہ کرے وہ صرف اللہ کی قسم کھائے ۔قریش کے لوگ اپنے باپ دادا کی قسم کھاتے تھے ۔آپ ﷺ نے فر مایا اپنے باپ دادا کی قسم مت کھاؤ۔[صحیح مسلم،حدیث: ۱۶۴۶]
اسی طر ح سے اگر کسی نے اللہ تعالی کی قسم کھائی مگر اس کے ساتھ انشاء اللہ کہہ دیا مثلا کسی نے کہا کہ :اللہ کی قسم میں فلاں سے بات نہیں کروں گا ،انشاء اللہ۔پھر بات کر لیا تو اس پر بھی کفارہ نہیں ۔چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:جس نے قسم کھائی اور انشاء اللہ کہہ دیا تو وہ حانث نہ ہوگا۔[تر مذی،حدیث: ۱۵۳۲]
قسم کے کفارے کیا ہیں؟ایسی قسم کھایا جس کو شریعت میں قسم مانا گیا ہے اور پھر توڑ دیا تو اب کفار ہ ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکین کو کھانا کھلائے یا انہیں کپڑا پہنائے یا ایک غلام آزاد کر دے اور اگر ان میں سے کسی بھی کام کے کرنے کی طاقت نہ ہو تو تین روزے رکھے۔ارشاد باری تعالی ہے۔
اللہ تمہاری غلط فہمی کی قسموں (یعنی قسم لغو)پر تم سے مواخذہ نہیں کرتا ہاں ان قسموں پر گرفت کرتا ہے جنہیں تم نے مظبوط کیا تو ایسی قسموں کا کفارہ دس مسکین کو کھانا دینا ہے اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہو اس کے اوسط میں (یعنی نہ بہت اچھا نہ بہت خراب ،در میانی کھانا)یا انہیں کپڑا دینا ہے یا ایک غلام آزاد کرنا ہے ۔اور جو ان میں سے کسی بات کی طاقت نہ رکھے وہ تین دن روزے رکھے ۔یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب قسم کھاؤ۔اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو ۔اسی طرح اللہ اپنی آیتیں تمہارے لئے بیان فر ماتا ہے تا کہ تم شکر کرو ۔ [سورہ،مائدہ ، آیت: ۸۹]
کھانے کے آداب پینے کے آداب لباس سے متعلق احکام و آداب تیل،خوشبواور کنگھی کے مسائل وآداب گھر سے نکلنے اور داخل ہونے کا طریقہ انگوٹھی پہننے کے مسائل سونے چاندی کے زیورات کے احکام ومسائل لوہا،تانبا،پیتل اور دوسرے دھات کے زیورات کے احکام مہندی،کانچ کی چوڑیاں اور سندور وغیرہ کا شرعی حکم بھئوں کے بال بنوانے،گودنا گودوانے اور مصنوعی بال لگوانے کا مسئلہ سفید بالوں کو رنگنے کے مسائل حجامت بنوانے کے مسائل وآداب ناخن کاٹنے کے آداب ومسائل پاخانہ، پیشاب کرنے کے مسائل وآداب بیمار کی عیادت کے فضائل ومسائل بچوں کی پیدائش کے بعد کے کام جھا ڑ پھونک اور د عا تعو یذ کے مسائل چھینک اور جماہی کے مسائل وآداب ہم بستری کے مسائل و آداب پیر کے اندر کن باتوں کا ہونا ضروری ہے؟ سونے،بیٹھنے ا و ر چلنے کے مسائل وآداب دوسرے کے گھر میں داخل ہونے کے مسائل وآداب سلام کرنے کے مسائل مصافحہ،معانقہ اور بوسہ لینے کے مسائل ماں باپ یا بزرگوں کا ہاتھ پیر چومنا اور ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہونے کا مسئلہ ڈ ھول،تاشے،میوزک ا و ر گانے بجانے کا شرعی حکم سانپ،گرگٹ اور چیونٹی وغیرہ جانوروں کومارنے کے مسائل منت کی تعریف اور اس کے احکام ومسائل اللہ کے لئے دوستی اور اللہ کے لئے دشمنی کا بیان غصہ کرنے اور مارنے پیٹنے کے مسائل غیبت،چغلی،حسد اور جلن کے شر عی احکام موت سے متعلق احکام و مسائل