صدقہ فطر



عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي ﷲ عنهما قَالَ: فَرَضَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم زَکَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثَی وَالصَّغِیْرِ وَالْکَبِیْرِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاةِ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےصدقہ فطر فرض فرمائی ہے ۔ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع جَو ،ہر غلام اور آزاد مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان کی طرف سے اور حکم فرمایا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ہی ادا کر دیا جائے۔[بخاری،حدیث:۱۴۳۲]
عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه یَقُوْلُ: کُنَّا نُخْرِجُ زَکَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صدقۂ فطر کا ایک صاع کھانا نکالا کرتے یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجوریں یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کشمش میں سے۔[بخاری،حدیث:۱۴۳۵]
عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: خَطَبَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَحِمَهُ ﷲُ فِي آخِرِ رَمَضَانَ عَلَی مِنْبَرِ الْبَصْرَةِ فَقَالَ: أَخْرِجُوْا صَدَقَةَ صَوْمِکُمْ فَکَأَنَّ النَّاسَ لَمْ یَعْلَمُوْا فَقَالَ: مَنْ هَاهُنَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِیْنَةِ قُوْمُوْا إِلَی إِخْوَانِکُمْ فَعَلِّمُوْهُمْ فَإِنَّهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ. فَرَضَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم هَذِهِ الصدقة صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ شَعِیْرٍ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ عَلَی کُلِّ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوْکٍ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی صَغِیْرٍ أَوْ کَبِیْرٍ. فَلَمَّا قَدِمَ عَلِيٌّ رضی الله عنه رَأَی رُخْصَ السِّعْرِ قَالَ: قَدْ أَوْسَعَ ﷲُ عَلَیْکُمْ فَلَوْ جَعَلْتُمُوْهُ صَاعًا مِنْ کُلِّ شَيْئٍ
حضرت حسن سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے رمضان کے آخر میں بصرے کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اپنے روزوں کا صدقہ نکالو۔ لوگ کچھ نہ سمجھے تو انہوں نے فرمایا کہ جو یہاں مدینہ منورہ کے رہنے والے ہیں وہ اپنے بھائیوں کے پاس جائیں اور انہیں بتائیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقۂ فطر کو مقرر فرمایا ہے کہ ایک صاع کھجوریں یا جَو اور نصف صاع گندم ہر آزاد، غلام، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے کی طرف سے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور غلے کی فراوانی دیکھی تو فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تمہیں وسعت دی ہے لہٰذا ہر چیز کا ایک صاع رکھ لو۔[سنن ابو داود،حدیث:۱۶۲۲]
مسئلہ:ہر مالک نصاب پر اپنی طرف سے اور اپنے نابالغ اولاد کی طرف سے صدقہ فطر دینا ضروری ہے ۔
مسئلہ:یہ کبھی بھی ادا کیا جا سکتا ہے مگر نماز عید سے پہلے پہلے ادا کرنا سنت ہے۔(صحیح بخاری ،حدیث: ۱۵۰۳۔صحیح مسلم، حدیث:۹۸۴)
مسئلہ:صدقہ فطر کی مقدار ،ایک صاع کھجوریا کشمش یا پنیر یا جَو یانصف صاع گندم ہے۔
موجودہ وزن کے اعتبار سے۴؍کیلو ،۹۰؍گرام کھجور،کشمش،پنیر یا جو، یا۔۲؍ کیلو:۴۵؍گرام گیہوں ہے۔ اگر روپئے کی شکل میں دینا چاہیں تو ان میں سے کسی ایک کی قیمت کے اعتبار سے ادا کرنا ہوگا۔مثال کے طور پر آج گندم ۱۵ ؍روپئے کیلو ہے۔تو ۲؍کیلو: ۴۵؍گرام کی قیمت ۳۰؍ روپئے ۶۸؍پیسے ہوئے ۔تو اب اتنا ہی روپیہ کسی نے دے دیا تو صدقہ فطر ادا ہو جائے گا۔ہاں !اگر حساب سے کچھ روپئے زیادہ ہی دے دے تو اور بہتر ہے ۔
مسئلہ: ہر سال صدقہ فطراِتنا ہی ادا کرنا ضروری ہے اس لئے جب بھی یہ موقع آئے تو متوسط درجے کے اعتبار سے ۲؍کیلو ۴۵؍گرام گندم یا ۴؍ کیلو ۹۰ ؍ گرام کھجور،کشمش ،پنیر یا جو ادا کریں یا اس کی قیمت بازار سے معلوم کر کے ادا کردے ۔ہر سال پر یشان ہو نے کی ضرورت نہیں۔
مسئلہ:عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ سبھی لوگ خواہ وہ کتناہی مالدار کیوں نہ ہو ۲/کیلو ۴۵ گرام گیہوں کی قیمت ہی صدقہ فطر میں دیتے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس سے فطرہ ادا ہو جائے گا،لیکن جب اللہ تعالیٰ نے وسعت دیا ہے تو چاہئے کہ وہ بھی غریبوں کے لئے وسعت پیدا کریں اور گیہوں کے بجائے کھجور اور کشمش کے اعتبار سے صدقہ فطر دیں۔



متعلقہ عناوین



زکوٰۃ کی اہمیت وفضیلت زکوٰۃ کے فرض ہونے کی شرطیں؟ زکوٰۃ کے نصاب کن اموال میں زکوٰۃ ہے اور کتنا ہے؟ زکوٰۃکے مصارف



دعوت قرآن