رسول اکرم ﷺکی سخا وت وفیاضی



سخاوت وفیاضی آپ ﷺکا نمایاں ترین وصف تھا ۔یہی وجہ تھی کہ ایک ایسے معاشرے میں جہاں کے لوگ فطرتاََسخاوت کرنا پسند کرتے تھے اور اپنے اجنبی مہمانوں کی خاطر داری کے لئے بھی اپنے قیمتی سے قیمتی اونٹ کو ذبح کرنے میں ذرہ برابر جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ ایسا کر کے انہیں بڑی خوشی محسوس ہوتی تھی اور اس کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ عربی شاعری کا ایک بڑا حصہ عربوں کی سخاوت وفیاضی پر مشتمل ہے ۔جس میں اہل عرب اپنی سخاوت وفیاضی پر ناز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔مگر اپنی تمام تر سخاوت وفیاضی کی عادت کے باوجود جب انہوں نے رسول اکرم ﷺکی شان سخاوت و فیاضی کو دیکھا تو ان کی زبانیں گنگ اور عقلیں حیرت و استعجاب کے اتاہ سمندرمیں ڈوب گئیں اور وہ اس سے اتنا متاثر ہوئے کہ سخت نفرت وکدورت کے باوجود آپ کے سایہ عاطفت میں آنے سے اپنے آپ کو نہ روک سکے۔
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ایک شخص نے حضور ﷺکے سامنے دست سوال پھیلایا تو آپ ﷺنے انہیں اتنی بکریاں عطا فرمائیں کہ ان سے دو پہاڑوں کے درمیان کی وسیع وادی بھر گئی ۔جب وہ شخص لوٹ کر اپنے قبیلے میں گیا تو ان لوگوں سے کہا:ای قوم! اسلموا۔فواللہ ان محمدا لیعطی عطاء ما یخاف الفقر۔اے میری قوم کے لوگو! اسلام لے آؤ۔کیونکہ محمد(ﷺ) اتنا زیادہ نوازتے ہیں کہ غریبی اور مفلسی کا اندیشہ بھی نہیں رہتاہے۔[صحیح مسلم،حدیث: ۲۳۱۲]
اسی طرح ابن شہاب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فتح مکہ کے بعد حنین میں جنگ کیا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح نصیب فر مائی۔اس دن رسول اللہ ﷺنے صفوان بن امیہ کو سو اونٹ عطا فر مایا،پھر سو اونٹ عطا فرمایا،پھر سو اونٹ عطا فرمایا۔ابن شہاب کہتے ہیں کہ مجھ سے سعید ابن مسیب نے یہ بیان کیا کہ : صفوان نے کہا کہ:خدا کی قسم!رسول اللہ ﷺنے مجھے عطا فر مایاجو بھی عطا فر مایا۔ آپ میری نظروں میں تمام لوگوں سے زیادہ ناپسندیدہ تھے لیکن آپ مجھے مسلسل نوازتے رہے یہاں تک کہ آپ میری نگاہوںمیں سب لوگوں سے زیادہ محبوب ہوگئے۔[صحیح مسلم،حدیث: ۲۳۱۳]
آپ ﷺ کی یہ سخاوت وفیاضی کسی ایک دو لوگو ں کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ جو بھی آپ کے در دولت پر آتا نہال ہو کر جا تا اور پھر اسے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت ہی نہ آتی۔
چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ، حضور رحمت عالم ﷺسے عرض گزار ہوئے کہ:یا رسول اللہ ﷺ!میں بہت زیر بار ہوں ۔غزوہ بدر کے بعد میں نے اپنا فدیہ بھی ادا کیا اور اپنے بھتیجے عقیل کا فدیہ بھی ادا کیااس لئے مجھے کچھ عطا فر مایئے۔حضور ﷺ کے پاس سونے چاندی کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا ۔حضرت عبا س نے اپنی چادر بچھائی اور اس ڈھیر سے سونا چاندی اٹھا اٹھا کر اپنی چادر میں رکھنے لگے جب وہ اپنی دل کی حسرت پوری کر چکے تو گٹھری باندھی ۔جب اس کو اٹھا کر اپنے سر پہ رکھنے لگے تو وہ اتنی وزنی تھی کہ اسے اٹھا نہ سکے ۔خدمت اقدس میں عرض کی کہ:یارسول اللہ !اس کے اٹھانے میں میری مدد فر مایئے۔آپ نے انکار کر دیا۔انہوں نے عرض کیا کہ :یا رسول اللہ ﷺ!کسی اور کو حکم دیں کہ وہ اٹھانے میں میری مدد کرے۔آپ ﷺنے ایسا بھی کرنے سے انکار کردیا ۔آخر کار انہوں نے اس میں سے کچھ نکال کر وزن کم کیا اور باقی ماند ہ کو بڑی دقت سے کسی طرح سر پہ اٹھالیا اور گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔جب تک حضرت عباس نظر آتے رہے حضور ﷺان کو دیکھتے رہے اور تعجب کرتے رہے۔ [ضیاء النبی،جلد۵؍ص:۳۲۱۔ ۳۲۲]
اسی طر ح ایک دفعہ بارگاہ رسالت میں نوے ہزار درہم(یعنی چاندی کا سکہ)آیا۔حضور ﷺنے فر مایا چٹائی پر ان کو رکھ دو۔پھر حضور ﷺاسے تقسیم کرنے کے لئے خود کھڑے ہوئے ۔جو شخص بھی آیا اس کی جھولی بھر بھر کے اسے واپس کیا یہاں تک کہ وہ سارے درہم ختم ہوگئے ۔اس کے بعد ایک سائل حاضر ہوا، اور دامن طلب پھیلایا ۔حضور ﷺنے فر مایا:میرے پاس تو اب کوئی چیز نہیں ہے ۔ البتہ ایسا کرو کہ فلاں دکاندار کے پاس جا کر میرے نام پر اپنی ضرورت کی چیزیں خرید لو ۔جب دکاندار میرے پاس آئے گا تو میں قیمت ادا کردوں گا۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ خدمت اقدس میں حاضر تھے۔انہوں نے کہاکہ:یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات کا مکلف نہیں بنایا ہے جس کی آپ کو قدرت نہ ہو۔نبی رحمت ﷺکو یہ بات پسند نہ آئی ۔جس کا اثرچہرہ اقدس پر بھی ظاہر ہوا۔ ایک انصاری صحا بی وہاں حاضر تھے انہوں نے عرض کیا کہ:ائے اللہ کے پیارے رسول!آپ بے دھڑک خرچ کریں اور یہ اندیشہ نہ کریں کہ آپ کا رب جو عرش کا مالک ہے وہ آپ کو تنگ دست کردے گا۔اپنے غلام کی یہ بات سن کر حضور مسکرانے لگے اورخوشی کے آثار رخ انور پر دکھائی دینے لگے۔آپ ﷺ نے فر مایا:بھذا امرت ۔مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے۔
حضرت معوذ بن عفراء کہتے ہیں کہ :میں ایک بڑے طشت میں تازہ کھجوریں بھر کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا ۔آپ ﷺنے چاندی اور سونا مٹھی بھر کر مجھے عطا فر مایا۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ:نبی رحمت ﷺکل کے لئے کچھ بچا کر نہ رکھتے تھے۔[ضیاء النبی،جلد۵؍ص:۳۲۲۔ ۳۲۳]
آپ ﷺ کے جود وسخا کے اتنے واقعات ہیں کہ سب کو بیان کرنے کے لئے ایک مستقل کتا ب کی ضرورت ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں آخر میں صرف ایک حدیث سے آقائے کریم ﷺکی شان سخاوت کا اندازہ لگا یئے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:کبھی ایسا نہ ہوا کہ کسی نے آپ ﷺ سے کچھ مانگا ، اور آپ نے ’ نہیں ‘ فر مایا ہو۔ [صحیح مسلم،حدیث: ۲۳۱۱]
انہیں احادیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام عشق ومحبت نے کیا خوب کہا کہ
واہ کیا جود وکرم ہے شہ بطحا تیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں، سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا۔
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا۔۔۔۔۔۔تارے کھلتے ہیں سخا کے، وہ ہے ذرہ تیرا۔
ان سب کے باوجود کبھی آپ ﷺنے اس پر فخر نہ فر مایا اور نہ ہی کسی سے فخریہ بیان فر مایا۔بلکہ آپ ﷺان سب کو رضائے الہی کا ذریعہ سمجھتے تھے اور اپنی امت کو بھی سخاوت کرکے اللہ تعالیٰ کی خوشنودگی حاصل کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے ۔چنانچہ سخاوت کی تعریف کرتے ہوئے آپ ﷺنے ارشاد فر مایاکہ:سخی انسان اللہ سے،جنت سے اور لوگوں سے قریب ہوتا ہے اور جہنم سے دور ہوتا ہے ۔جبکہ بخیل انسان اللہ سے،جنت سے اور لوگوں سے دور ہوتا ہے اور جہنم سے قریب ہوتا ہے۔اور بے شک جاہل سخی اللہ تعالیٰ کے یہاں زیادہ پسندیدہ ہے عبادت کرنے والے بخیل سے۔ [ترمذی،حدیث: ۱۹۶۱]
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا کہ:المومن غر کریم والفاجر خب لئیم۔مومن غیور اور بخشش کرنے والا ہوتا ہے۔ اور بد بخت گھٹیا حرکت کرنے والا اور کمینہ ہوتا ہے۔[ترمذی،حدیث: ۱۹۶۴]
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:ائے لوگو!اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے دین اسلام پسند فر ما لیا ہے ۔سو تم اسلام کی رفاقت کو سخاوت اور حسن اخلاق کے ذریعے عمدہ بناؤ۔سنو! سخاوت جنت کا ایک درخت ہے ،جس کی شاخیں دنیا میں ہیں ،تم میں سے جو سخی ہوگا وہ اس کی شاخ سے چمٹا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فر مادے گا۔اور کمینہ پن ،جہنم کا ایک درخت ہے ،جس کی شاخیں دنیا میں ہیں،تم میں سے جو کمینہ ہوگا وہ اس کی شاخ سے چمٹا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں بھیج دے گا۔ [کنز العمال،۶/۵۷۱]



متعلقہ عناوین



رسول اکرم ﷺکی شان زہد وقناعت رسول اکرم ﷺکا طریقہ تعلیم رسول اکرم ﷺ کی نمازیں رسول اکرم ﷺکے روزے رسول اکرم ﷺ کا حج اور عمرہ رسول اکرم ﷺ کا صدقہ و خیرات رسول اکرم ﷺکے خطوط رسول اکرم ﷺکے خطبات رسول اکرم ﷺکی دعائیں رسول اکرم ﷺکی وصیتیں اور نصیحتیں



دعوت قرآن