ہجرت کے ساتویں سال ماہ محرم میں آقائے کریم ﷺنے اپنے زمانے کے مختلف بادشاہوں کے نام خطوط تحریر فر مائے اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ یہ خطوط حدیث کی متعدد کتا بو ں میں مذکور ہیں۔یہ تمام تر خطوط انتہائی سادہ اور تکلفات سے بالا تر ہونے کے باوجود اتنے دلنشیں اور اثر انگیز ثابت ہوئے کہ ان میں سے اکثر کے قلوب و اذہان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔مو قع کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم آپ ﷺکے زبان مبارک سے نکلے ہوئے انمول موتی کی اصل عربی عبارت پیش کرتے اور پھر اس کاتر جمہ لکھتے مگر طوالت کے خوف اور قارئین کے عدم فر صتی کا خیال رکھتے ہوئے صرف ان کا اردو تر جمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔
رسول اکرم ﷺکی سخا وت وفیاضی
رسول اکرم ﷺکی شان زہد وقناعت
رسول اکرم ﷺکا طریقہ تعلیم
رسول اکرم ﷺ کی نمازیں
رسول اکرم ﷺکے روزے
رسول اکرم ﷺ کا حج اور عمرہ
رسول اکرم ﷺ کا صدقہ و خیرات
رسول اکرم ﷺکے خطبات
رسول اکرم ﷺکی دعائیں
رسول اکرم ﷺکی وصیتیں اور نصیحتیں
آپ ﷺنے اپنا پہلا خط اپنے صحابی حضرت عمرو بن امیہ الضمری کے ہاتھ سے حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی (جن کا اصلی نام اصمحہ تھا )کو بھیجا ۔انہوں نے جب آپ ﷺکا خط مبارک پایا تو اس کو اپنی آنکھوں پہ رکھا اور از راہ ادب اپنے تخت سے نیچے اتر کر زمین پر بیٹھ گیا اور اس خط کوپڑھا ۔وہ خط یہ تھا۔
بسم اللہ الر حمن الرحیم
یہ خط ہے محمد رسول اللہ کی طرف سے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے نام۔
اما بعد ۔میں تیرے سامنے اللہ کی حمد کرتا ہوں جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے۔وہ بادشاہ حقیقی ہے ۔ ہر عیب سے پاک ہے ،سلامت رکھنے والا ہے،امان دینے والا ہے ،نگہبان ہے ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ عیسیٰ روح اللہ ہیں اور اس کے کلمہ ہیں جو اس نے مریم کو القاء کیا۔وہ مریم جو اللہ تعالیٰ سے لو لگائے ہے۔پاک ہے۔،مطہر ہے۔خوشبودار ہے،پاک دامن ہے ۔جو عیسیٰ کی حاملہ ہوئیں اللہ نے پیدا کیا اسے اپنی روح سے اور پھونکا اس روح کو مریم میں جس طر ح آدم کو اپنے دست قدرت سے تخلیق فر مایا۔
[اے نجاشی!]میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ ایمان لاؤاس اللہ پر جو وحدہ لا شریک ہے۔ اور ہمیشہ اس کی اطاعت کرو ۔پس اگر تو میری پیروی کرے گا اور ایمان لائے گا اس پر جو میں لے کر آیا ہوں تو بے شک میں اللہ کا رسول ہوں ۔میں تمہیں اور تمہارے سارے لشکر کو اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں۔میں نے پیغام حق تمہیں پہونچا دیا اور نصیحت کا فر ض ادا کر دیا۔پس میری نصیحت قبول کر لو ۔میں نے تمہاری طرف اپنے چچا زاد بھائی جعفر کو اور اس کے ساتھ چند مسلمانوں کو بھیجا ہے ۔
پس اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کی اتباع کرے۔
نجاشی نے خط پڑ ھنے کے بعد اسلام قبول کر لیا اور آپ ﷺکے پاس اس خط کا جواب بھیجا۔ نجاشی کا خط یہ تھا۔
بسم اللہ الر حمن الر حیم
یہ عریضہ نجاشی اصمحہ کی طرف سے ہے۔
یا رسول اللہ ﷺ! آپ پر اللہ تعالیٰ کا سلام ،رحمتیں اور بر کتیں نازل ہوں ۔وہ اللہ جس کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے ۔جس نے مجھے اسلام قبول کرنے کی ہدایت دی ۔
اما بعد۔۔۔۔۔۔۔یا رسول اللہ! حضور کا خط مبارک مجھے ملا ۔حضرت عیسیٰ کے بارے میں حضور نے جو ذکر کیا ہے۔زمین وآسمان کے پروردگار کی قسم ! حضرت عیسیٰ اس سے ذرہ برابر بھی کم وبیش نہیں ہیں ۔آپ کے چچا زاد بھائی جعفر اور دوسرے مسلمان یہاں پہونچ گئے ہیں ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ حضور اللہ کے سچے رسول ہیں ۔میں نے حضور کی بیعت کی اور حضور کے چچا زاد بھائی کے ہاتھ پر اللہ رب العالمین پر ایمان لے آیا ہوں ۔اپنے بیٹے ارھا کو حضور کی خدمت اقدس میں بھیج رہا ہوں ،اگر حکم ہو تو میں خود بھی حاضر ہونے کو تیار ہوں ۔میں گواہی دیتا ہوں کہ حضور کا ہر فرمان حق ہے ۔
والسلام علیک یا رسول اللہ ورحمۃ اللہ و بر کاتہ۔
آپ ﷺنے اسی طر ح کا ایک خط روم کے بادشاہ قیصر کی طرف حضرت دحیہ بن کلبی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے بھیجا ۔اس کا تر جمہ مندر جہ ذیل ہے۔
بسم اللہ الر حمن الرحیم
یہ خط محمد کی طرف سے ہے جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ہرقل کی طرف جو روم کا بڑا ہے۔
سلامتی ہو ہر اس شخص پر جو ہدایت کا پیروکار رہے۔
اما بعد۔۔۔۔۔میں تمہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں ۔تو اسلام لے آ۔سلامت رہے گا۔تو اسلام لے آ۔اللہ تعالی تمہیں دو چند اجر عطا فر مائے گا۔اور اگر تونے اس دعوت کو قبول کرنے سے رو گردانی کی تو تمہارے کسانوں کے انکار کرنے کا گناہ بھی تیری گردن پر ہوگا ۔اے اہل کتاب !آجاؤاس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے در میان برابر ہے وہ یہ کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور کسی چیز کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے اور ہم اللہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو اپنا رب نہیں بنائیں گے ۔اگر اس دعوت کے باوجود وہ رو گردانی کرے تو تم کہو اے رو گردانی کرنے والو! گواہ رہنا ہم مسلمان ہیں۔
اللہ
رسول
محمد
یہ آپ ﷺ کا مہر کا نقشہ تھا جو آپ اپنے خطوط پر لگاتے تھے۔
ہر قل اس خط کو پڑھ کر جلال نبوت سے پسینہ پسینہ ہو گیا اور آپ ﷺکے خط کو بڑے ادب واحترام سے رکھا ۔آپ ﷺنے اپنادوسرا خط ہر قل کے پاس اس وقت بھیجا جب کہ آپ تبوک کے میدان میں اپنے صحابہ کے ساتھ جلو ہ گر ہوئے تھے اس نے خط پڑ ھنے کے بعد اپنی رعایا سے کہا کہ اے لوگو!تمہیں معلوم ہے کہ یہ نبی برحق ہے ایمان لے آؤ۔مگر اس کی یہ بات سن کر لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی تو پھر اس نے پینترا بدلا اور کہا کہ:میں تو صرف تم لوگو ! کو آزما رہاتھا۔آخر کار وہ ایمان نہ لایا۔حضور ﷺنے اس کے بارے میں ارشاد فر مایا کہ:اس نے میرے خط کو عزت واحترام سے وصول کیا ،لوگ اس کی قوت سے خائف رہیں گے جب تک کہ اس کی زندگی میں خیر ہوگی۔
چنانچہ جب تک اس کی بادشاہت رہی لوگ اس کی طاقت و قوت سے خائف رہے۔
اسی طرح آپ ﷺ نے مصر کے بادشاہ مقوقس کے پاس بھی اپنا ایک خط حضرت حاطب بن بلتعہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے بھیجا وہ خط یہ تھا۔
بسم اللہ الر حمن الر حیم
یہ خط محمد کی طرف سے جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں مقوقس کی طرف جو قبطیوں کا سردار ہے ۔سلامتی ہو ہر اس شخص کے لئے جو ہدایت کا پیرو کار رہے۔
اما بعد۔۔۔میں تمہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں ۔اسلام لے آؤسلامت رہوگے اور اللہ تعالی تمہیں دوگنا اجر عطا فر مائے گا ۔اور اگر تم رو گردانی کرو تو سارے قبطیوں کی گمراہی کا گناہ تیری گردن پر ہو گا۔
اے اہل کتاب !آجاؤاس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے در میان برابر ہے وہ یہ کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور کسی چیز کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے اور ہم اللہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو اپنا رب نہیں بنائیں گے ۔اوراگر یہ لوگ رو گردانی کرے تو تم کہو اے منکرو! گواہ رہنا ہم مسلمان ہیں۔
مقوقس نے آپ ﷺکے خط مبارک کو نہایت ادب و احترام سے رکھا اور پھر ایک عر بی داں کاتب کو بلا کر جو ابی خط لکھوایا اس خط کا تر جمہ یہ ہے۔
بسم اللہ الر حمن الر حیم ۔محمد بن عبد اللہ(ﷺ)کی خدمت میں مقوقس عظیم قبط کی طرف سے۔آپ پر سلام ہو۔
اما بعد ۔۔۔میں نے آپ کا خط پڑ ھا اس کے مندرجات کو اور جس دین کو قبول کرنے کی آپ نے دعوت دی ہے اسے سمجھا ۔مجھے اس بات کا علم تھا کہ ایک نبی کی آمد ہوگی لیکن میرا خیال تھا کہ وہ ملک شام سے ظاہر ہوں گے ۔میں نے آپ کے قاصد کی عزت وتکریم کی ہے۔میں حضور کی خدمت میں دو کنیز یں بھیج رہا ہوں جن کی اہل قبط کی نگا ہوں میں بڑی قدر ومنزلت ہے ۔ ایک خلعت اور خچرحضور کی سواری کے لئے پیش ہے۔والسلام علیک۔
اس نے اپنے اسلام کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ۔ان دو کنیزوں میں سے ایک کا نام ماریہ تھا جس کو حضور نے قبول فر مایا۔انہی کے شکم سے حضور کے صاحبزادے حضرت ابرا ہیم پیدا ہوئے۔اور دوسری کانام سیرین تھا جسے آپ ﷺنے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو عطا فر مادیا۔
حضور رحمت عالم ﷺنے اسی طرح کا خط حضرت شجاع بن وہب رضی اللہ عنہ کی معرفت حارث بن ابی شمر الغسانی کے پاس بھیجا جو قیصرکی طرف سے غسانی ریاست کا حکمران تھا ۔شجاع کہتے ہیں کہ جب میں حارث کے پاس پہو نچا تو دو دن تک اس کے دروازے پر بیٹھا رہا لیکن ملاقات کی کوئی صورت نہ نکلی آخر کار میں نے اس کے دربان سے رابطہ کیا اور اسے بتایا کہ میں رسول اللہ ﷺکا قاصد ہوں ۔اور حارث کے نام حضور کا خط لایا ہوں ۔دربان نے بتایا کہ حارث فلاں دن با ہر نکلے گا اس سے پہلے ملاقات ناممکن ہے ۔چنانچہ وہاں مجھے مجبوراََرکنا پڑا۔اس دوران وہ دربان میرے پاس آتا رہا اور مجھ سے حضور کے بارے میں بہت سارے سوالات کرتا اور جب میں حضور کے حالات بتاتا تو سنتے سنتے بسا اوقات اس کی آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگتے ۔وہ کہتا کہ میں نے انجیل میں آنے والے نبی کے بارے میں جو نشا نیا ں پڑ ھی ہیں وہ سب میں نے ان میں پا ئی ۔میں ایمان لاتا ہوں اور ان کی تصدیق کرتا ہوں ۔اگر مجھے حارث کا ڈر نہیں ہوتا تو میں اپنے ایمان کا اعلان کرتا ۔وہ دربان میری بڑی عزت کرتا ۔اس نے مجھے بتایا کہ حارث سے امید نہ رکھو کہ وہ اسلام قبول کرے گا کیو نکہ وہ قیصر سے ڈرتا ہے۔
جس دن حارث با ہر نکلا حضرت شجاع نے حضور کا خط اسے پیش کیا اس نے کھول کر پڑھا وہ خط یہ تھا۔
بسم اللہ الر حمن الر حیم۔محمد رسول اللہ کی طرف سے حارث بن ابی شمر کے نام۔
ہر اس شخص پر سلامتی ہو جو ہدایت کا پیرو کار رہےاور اس پر ایمان لے آیا ہے اور اس کی تصدیق کی ہے ۔ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ تم اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان لے آؤ۔تمہارا ملک با قی رہے گا۔
حارث خط پڑ ھ کر غصہ سے بے قابو ہو گیا اور اس نے حضور کے خط کو زمین پر پھینک دیا ۔اور بڑ بڑ اکر کہنے لگا۔ کہ کون ہے جو مجھ سے میری حکومت چھیننا چا ہتا ہے ؟میں اس پر حملہ کروں گا۔اس نے فورا اپنے فوج کو تیاری کا حکم دیا ۔اور اپنے ارادے سے قیصر کو آگاہ کیا ۔قیصر نے اسے فورا جواب لکھا کہ ان پر حملہ کرنے کا خیال اپنے دما غ سے نکال دو اور تم میرے پاس حاضر ہو۔جب حارث کو قیصر کا خط ملا اور جب اس نے پڑ ھا کہ قیصر نے سختی سے اسے حملہ کرنے سے روک دیا ہے تب اس کا دماغ ٹھکانے پر آیا اور اس کا مزاج درست ہو گیا۔پھر اس نے حضرت شجاع کو بلا کر پو چھا کہ تم مدینہ کب جارہے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ :کل کا ارادہ ہے ۔تو پھر اس نے ایک سو مثقال سونا تحفہ میں پیش کیا۔
اللہ کے سچے رسول ﷺنے اسی طر ح کا خط حضرت عبد اللہ بن حذافہ السہمی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے ایران کے بادشاہ کسریٰ خسرو پر ویز کو بھیجا اس خط کا مضمون یہ تھا۔
بسم اللہ الر حمن الر حیم۔
یہ خط محمد رسول اللہ (ﷺ)کی طرف سے کسریٰ شاہ ایران کے نام ہے۔
سلامتی ہو ہر اس شخص پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آیا اور یہ گواہی دی کہ اللہ وحدہ لا شریک کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔اور بیشک محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اے کسریٰ! میں تمہیں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں کیو نکہ میں اللہ عز وجل کا رسول ہوں تمام لوگوں کی طرف تا کہ میں بر وقت متنبہ کروں ان لو گوں کو جو زندہ ہیں ۔اور حجت تمام کر دو ں کا فروں پر ۔اسلام قبول کر لے سلامت رہے گا ۔اگر تو اسلام قبول کرنے سے انکار کرے گا تو تیری گردن پر سارے مجو سیوں کی گمراہی کا گناہ ہوگا۔
جب کسریٰ نے یہ خط پڑ ھا تو غصہ سے کانپنے لگا اور اس خط کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گستا خی کرتے ہو ئے کہا کہ:میرا ایک غلام مجھے اس طر ح کا خط لکھنے کی جرأت کرتا ہے۔جب حضور ﷺکو اس کی یہ ساری کاروائی بتا ئی گئی تو آپ ﷺنے فر مایا:اس نے میرے خط کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔
کسریٰ نے ملک یمن میں اپنے مقرر کردہ گورنر’ باذان‘ کو حکم نامہ لکھا کہ تمہارے علاقہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے تم فورا اس کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگا کر میرے پاس بھیج دو۔باذان نے اپنے وزیر بانویہ کو ایک فارسی النسل شخص کے ساتھ مدینہ بھیجا جس کانام' خر خسرہ ' تھا نیز اس نے حضور کے نام ایک خط بھی لکھا جس میں اس نے تحریر کیا کہ :آپ ان دو نو ں کے ساتھ فورا کسریٰ کے دربار میں حاضر ہو جائیں۔
جب یہ لوگ طائف پہو نچے تو ان کی ملاقات قریش مکہ کے کچھ سرداروں سے ہوئی جب ان لوگوں کو حالات معلوم ہوئے تو بڑے خوش ہوئے کہ اب ان کا مقابلہ کسریٰ سے ہے اب یہ لوگ جلد ہی ختم ہو جائیں گے۔بانویہ اور خر خسرہ دونوں وہاں سے چل کر مدینہ پہونچے ۔ حضور نے ان لوگوں کا استقبال کیا اور ان کے کھانے اور رہنے کا اچھا انتطام فر مایا۔پھر ایک صبح ان لوگوں کو حضور ﷺ نے اپنے پاس بلا یااور ان سے گفتگو فر مائی۔بانویہ نے کہا کہ:بادشاہ ایران نے ہمارے بادشاہ کو آپ کی گرفتاری کا حکم دیا ہے اور اس نے یہ ذمہ داری ہم دونوں کے سپرد کیا ہے۔اس لئے آپ فورا ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیا ر ہو جائیں ۔اگر آپ آسانی کے ساتھ ہمارے ساتھ چلیں گے تو باذان آپ کے لئے ایران کے بادشاہ سے آپ کے حق میں سفارش کر دے گا جس سے آپ کو فا ئدہ ہو گا ۔نہیں تو اس کا انجام بہت برا ہوگا۔ آپ ﷺنے اس کی دھمکیوں کو سن کر مسکرائے اور محبت بھرے انداز میں ان لوگو ں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ان لوگوں نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو کم از کم باذان کو جوابی خط ہی لکھ دیں۔آپ ﷺنے فرمایا :جاؤابھی آرام کرو کل صبح پھر ملا قات ہوگی۔
رات کو حضرت جبر ئیل امین بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ:یارسول اللہ !اللہ تعالیٰ نے اس گھمنڈی خسروپر ویز پر اس کے بیٹے شیر ویہ کو مسلط کر دیا ہے۔اس نے رات کو فلاں وقت اس کے پیٹ میں چھرا گھونپ کر اس کا کام تمام کر دیا ہے۔جب صبح کے وقت بانویہ اور خر خسرہ حاضر ہوئے تو حضور نے فر مایا کہ: جا کر اپنے بادشاہ باذان کو خبر کردو کہ میرے رب نے اس کے رب کسریٰ کو قتل کر دیا ہے جب کہ رات کے سات پہر گزر چکے تھے۔اس کے بیٹے شیر ویہ نے اس کی چھاتی پر چڑھ کر اس کے پیٹ کو پھاڑ ڈالا ہے۔وہ کہنے لگے کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟ہم اپنے بادشاہ کو بتادیں گے وہ آپ کو بڑی سزا دے گا۔آپ ﷺنے فر مایا:ہاں !جا کر یہ ساری بات اسے بتادو اور اسے یہ بھی بتانا کہ میرا دین اور میری حکومت کسریٰ کے ملک کی آخری سر حدوں تک پہو نچے گی بلکہ وہاں تک پہونچے گی جہاں تک کوئی کھر یا سم والا جانور موجود ہے۔اسے میری طرف سے یہ بھی کہنا کہ اگر تم اسلام قبول کر لوگے تو تمہارا ملک اور تمہارے ساز وسامان تمہارے پاس ہی رہنے دیا جائے گا۔
یہ لوگ جب واپس آکر اپنے بادشاہ باذان کو پوری بات بتلا ئی تو باذان نے کہا کہ:یہ کسی بادشاہ کی گفتگو نہیں بلکہ نبی کی معلوم ہوتی ہے۔اگر ان کی بتائی ہوئی یہ خبر سچی نکلی تو سب بادشا ہوں سے پہلے میں ایمان لے آؤں گا۔چند ہی دن گزرے تھے کہ شیر ویہ کا خط اسے ملا جس میں اس نے اپنے باپ کو قتل کرنے کی اطلاع دی تھی اور باذان کو حکم دیا تھا کہ اب اسے کسریٰ تسلیم کر لے۔یہ خط پڑ ھنے کے بعد اسے مکمل یقین ہو گیا کہ حضور سید الکونین اللہ کے سچے رسول ہیں ۔چنانچہ اس نے اور کئی فارسی النسل لو گوں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا اور اپنے ساتھیوں کے اسلام قبول کرنے کی خبر حضور ﷺ کے پاس (ملخصاََ،ضیاء النبی،جلد:۴؍ص:۱۸۰ تا ۲۰۷) بھیج دی۔
متعلقہ عناوین