دعوت وتبلیغ ،وہ پاکیزہ اور مقدس کام ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چو بیس ہزار انبیائے کرام کو دنیا میں مبعوث فر مایا۔اوران کے ذریعے ان گنت انسانوں کو بد عقیدگی اور بد عملی کی تہ بتہ تاریکیوں سے نکال کر شاہراہ ھدایت پر گا مزن فر مایا۔اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے وہ چا ہتا تو بغیر کسی واسطے اور ذریعے کے بھی اپنے بندوں کو ہدایت عطا کر سکتا تھااور یقینا وہ اس بات پر ہر وقت قادر ہے ۔ مگر اس نے اپنی بے پناہ حکمتوں کے تحت اس دنیا میں جس طر ح دیگر چیزوں کو اسباب کے تحت رکھا اسی طرح ہدایت و نجات کو بھی اسباب کے تحت رکھا ۔وہ لوگ بڑے مقدس اور خوش قسمت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کسی کی ہدایت ونجات کا سبب اورذریعہ بناتا ہے ۔
اس لئے ہر مبلغ کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اپنے کسی بندے کو ہدایت نصیب عطا فر مادے۔ مگر بسا اوقات تبلیغ کے بنیادی اصول وقواعد کے نہ جاننے کی وجہ سے سخت محنت و مشقت کے باوجود ہم کا میابی حاصل نہیں کر پاتے ۔اور آخر کار ہم ہمت ہار کر اس میدان کو چھوڑنے میں اپنی عا فیت سمجھ بیٹھتے ہیں۔اس لئے ذیل میں مختصرا ان بنیادی اصول وقواعد کو سیرت مصطفی ﷺکے آئینے میں پیش کیا جاتا ہے جن پر عمل کئے بغیر کوئی کامیاب مبلغ بن ہی نہیں سکتا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان خطوط پر چل کر دوسروں کی ہدایت کا ذریعہ بننے کی تو فیق عطا فر مائے۔
دعوت کی اہمیت کا احساس: ہر مبلغ کے دل ودماغ میں اپنی دعوت کی اہمیت کاشدید احسا س ہو نا نہایت ضروری ہے۔کیو نکہ یہی وہ طاقت ہے جو ایک مبلغ کو اپناسب کچھ تج کرکے، تمام تر دشواریوں اور مشکلات کے باوجود جگہ جگہ اپنی دعوت کو عام کرنے کے لئے ہر وقت پریشان رکھتی ہے ۔اور حوصلہ شکن حالات میں بھی اسے بے پناہ حوصلہ بخشتی ہے۔
آپ ﷺ کے اندر یہ احسا س اتنا زیادہ تھا جس نے آپ کو ہر لمحہ بے چین کئے رکھا۔۔اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اسی بے قراری اور لوگوں کی ہدایت کی شدید آرزو کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فر مایا: لعلک باخع نفسک علی آثارھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفا۔(اے پیغمبر!)اگر یہ لوگ اس کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید ان کے پیچھے رنج کر کے آپ اپنے کو ہلاک کر دیں گے ۔
ذرا آپ اس شخص کے غموں کا اندازہ لگا یئے ! جس گھر کے تمام افراد غیر مسلم تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اپنے ایک نیک دل بندے کے ذریعے ہدایت عطا فر مائی ۔اور اس کا گھر جنت کا نمونہ بن گیا ،ایک دن اس گھر کا ایک ذمہ دار اپنے اس محسن کے ساتھ بیٹھا گفتگو کر رہاتھا اور اپنے دل میں موجزن ہدایت کے جذبات واحساسات سے شاد ہو رہا تھا کہ اچانک وہ اس قدر بلک بلک کر رونے لگا کہ وجہ نہ جاننے کے باوجود سب کی آنکھیں بھیگ گئیں۔جب وہ قدرے پر سکون ہوا تو اللہ کے اس نیک بندے نے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہاکہ:اللہ آپ پر اپنی رحمتیں نازل فر مائے ۔کیو نکہ آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو ہدایت عطا فرمائی اور ہمیشگی کے عذاب سے نجات عطا فر مائی۔مگر آپ کے آنے سے کچھ مہینے پہلے میرے والد کا انتقال ہوگیا ۔وہ نیک دل اور اچھی خصلت کے مالک تھے مجھے لگتا ہے کہ اگر آپ ان کی زندگی میں آتے اور انہیں یہ پاکیزہ دعوت دیتے تو وہ ضرور آپ کی دعوت قبول کر لیتے ۔آہ!مگر وہ تو اب ہمیشہ جہنم میں جلیں گے ۔اس طر ح نہ جانے کتنے لوگ ہوں گے جو ہماری دعوت کے نہ پہونچنے کی وجہ سے گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔اس بات کا احساس ہمیں ہر وقت ہونا چا ہئے ۔کیو نکہ یہی احسا س مبلغ کو ہر وقت جگہ جگہ لئے پھرتا ہے اور کسی بھی وقت اسے آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ اس لئے یہ احسا س ہر مبلغ کے اندر موجود ہونا از بس ضروری ہے۔
دعوت کوپہلے خود اپنانا: دعوت وتبلیغ کی کامیابی کے لئے بنیادی شرط، دعوت کو پہلے خود اپنانا ہے ۔چنانچہ نبی کریم ﷺنے جس بات کی دعوت لوگوں کو دی اسے پہلے خود اپنایا اور جن اصولوں کی طرف دوسروں کو بلایا خود ان کا عملی نمونہ بن کر دکھایا ۔اگر آپ ﷺ لوگوں کو عبادت خدا وندی کی دعوت دیتے تو خود بھی اللہ تعالیٰ کی بندگی کی اعلی ترین مثالیں قائم کرتے ۔نماز کی دعوت دیتے تو خود بھی اس قدر نمازیں پڑھتے کہ آپ کے پائے اقدس میں ورم آجاتا ۔خوف خدا کی باتیں کرتے تو خود بھی خوف الہی سے اس قدر گر یہ فر ماتے کہ لوگ آپ پر تر س کھا جاتے ۔سادگی کی تعلیم دیتے تو خود بھی ایسی سادہ زندگی گزارتے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے شیر دل انسان کے بھی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ ﷺکی گفتگو لوگوں کے دلوں کو متا ثر کرتی اور بسا اوقات آپ ﷺ کو دیکھتے ہی کچھ لوگ ایمان لے آتے۔جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن سلام جو ایک بڑے یہودی عالم تھے جب انہوں نے پہلی نظر آپ ﷺ کو دیکھا تو اپنا تأثر ان الفا ظ میں بیان کیا کہ:مجھے یقین ہے کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے شخص کا نہیں ہو سکتا۔[المستدرک للحاکم]
اس لئے آپ اپنی دعوت کو کامیابیوں سے ہم کنار کرنے کے لئے سب سے پہلی اپنی زندگی کو اپنے منصب کے مطابق ڈھا لیں اور کسی کے سامنے خوف خداسے رونے کی حقیقت بیان کرنے سے پہلے راتوں کو اٹھ کر کے اپنی جائے نماز کو آنسوؤں سے تر کریں ۔پھر جب دعوت دیں گے تو اپنی گفتگو کی اثر انگیزی سے خود حیران رہ جائیں گے ۔بصورت دیگر آیت کریمہ’ کبر مقتا عند اللہ ان تقولوا ما لا تفعلون ‘ اللہ کے نزدیک یہ بات بڑی نا پسندیدہ ہے کہ تم کوئی ایسی بات کہو جو تم خود نہیں کرتے ہو‘‘۔کے مصداق ٹھہریں گے اورلو گوں کو متأثر کرنے میں نا کامی کا سامنا کر نا پڑے گا۔
نیز دعوت میں ترتیب کا خیال رکھنابھی ایک اہم بات ہے کہ اسے خود اپنانے کے بعد پہلے اپنے گھر پھر محلہ پھر علاقہ پھر ضلع پھر ریاست پھر ملک میں اپنی دعوتی کاموں کو انجام دیں ۔کیو نکہ ہم سے جو جتنا زیادہ قریب ہے ہماری دعوت کا وہ اتنا ہی مستحق ہے۔ اور یہی مصطفی جان رحمت ﷺ کی سیرت بھی ہے۔
دعوت بلا معاوضہ: داعی اعظم ،حضور سید المر سلین ﷺاور تمام انبیائے کرام علیھم الصلوۃ والسلام کا ایک ہی شعار رہا ’ ان اجری الا علی اللہ‘ میرا صلہ تو خدا کے ذمے ہے۔چنانچہ آپ ﷺدین کی راہ میں اپنے صحابہ کو مال لٹانے کا حکم تو ضرور دیتے مگرفقر وفاقہ کے با وجود کبھی اپنی ذات کے لئے کسی سے کوئی سوال نہیں کرتے ۔
یہاں تک کہ ہجرت کے سخت موقع پرجب آپ ﷺ کے رازدار اور سب سے قریبی صحابی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کے لئے ایک اونٹنی خریدی تونبی کریم ﷺنے قیمت کی ادائیگی کے بغیر اس پر سوار ہونے سے انکار فر مادیا۔ایسے سنگین حالات میں جب کہ انسان کو اپنے دشمنوں کے تعاقب کی فکر کے علاوہ کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں رہ جاتی ہے اس وقت بھی آپ ﷺکو اپنی اونٹنی کی قیمت کی ادائیگی کی فکر لاحق تھی ۔جب کہ ایسے مشکل حالات میں اس قسم کے ثانوی امور کے بارے میں کسی انسان کا سوچنا بھی نا ممکن نظر آتا ہے۔ اس سے بڑھ کر للہیت اور خلوص کیا ہو سکتا ہے۔در حقیقت اس واقعے میں دور حاضر کے داعیان اسلام کے لئے ایک بڑا سبق ہے جسے خوب سمجھ لینا چا ہئے۔
نتا ئج بہ سپرد خدا: ہر مبلغ کو یہ بات خوب ذہن نشیں کر لینا چاہئے کہ ان کاکام صرف پورے اخلاص وللہیت کے ساتھ تبلیغ ہے باقی انجام ، قبولیت اور نتائج اللہ تعالی کے سپرد ہے۔نبی کریم ﷺکی ابتدائی زندگی میں اس قسم کے بے شمار نمونے موجود ہیں ۔
چنانچہ آپ ﷺمکہ کے سخت جان کافروں کو ایک زمانے تک راہ راست پر لانے کی کوشش بلیغ فر ماتے رہے لیکن کوئی خاطر خواہ کا میابی نہ ہوئی بلکہ اس کے بدلے میں ان لوگوں نے آپ کو ان مشکلات سے دوچار کیا جس سے دنیا میں کسی کا واسطہ نہ پڑا ۔مگر آپ ﷺ اس وقت بھی پر عزم رہے اور اس امید میں کہ یہاں کے لوگ نہیں مانتے تو چلو کسی دوسر ی جگہ کے لوگوں کے پاس چل کر کوشش کرنی چاہئے ۔ چنانچہ آپ ﷺمکہ سے طائف پید ل چل کر تشریف لے گئے اور وہاں کے سرداروں کے سامنے ایک ایک کر کے نہایت خیر خواہی اور ہمدردی کے ساتھ احسن طریقے سے اپنی دعوت پیش کی۔مگر ان لوگوں نے جفا کاری کی انتہا کر دی اور نہ یہ کہ صرف ان لوگوں نے آپ کے ساتھ تو ہین آمیز سلوک کرنے پر اکتفا کیا بلکہ آپ ﷺ کو شہر سے نکال دیا اور جاتے وقت اوباش قسم کے بچوں کی ایک ٹولی آپ کے ساتھ لگا دی جس نے آپ ﷺ پر اتنے پتھر برسائے کہ آپ ﷺخون سے لہو لہان ہو گئے ۔ مگر ان سب کے باوجود آپ اپنی ہمت نہ ہارے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ جوش وجذبے کے ساتھ اپنی تبلیغ جاری رکھی اور بالاٰخر آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی کامیابی نصیب کی جو کسی کو بھی حاصل نہ ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ جو مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ دیگر انبیائے کرام کا ایک زمانے تک نہایت جگر سوزی سے دعوت کا کام کرنے کے بعد ان کی زندگی میں ایک ایسا موقع آیا کہ وہ اپنی ہٹ دھرم اور ضدی قوم سے تنگ آکر ان کے خلاف دعاء ہلاکت فر مائی اور پھر دعائے نبوت بارگاہ الہی میں مقبول ہوئی اور ان کی قوم کے لوگ ہلاک وبر باد کر دیئے گئے مگر نبی کریم ﷺکی زندگی میں اس سے زیادہ مشکل اوقات آئے لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ نے ان کے لئے ہلاکت کی دعا کرنے کے بجائے دعائے ہدایت ہی فر مائی ۔ چنانچہ طائف کا وہ دلخراش واقعہ ہو یا احد کا خون ریز منظر آپ ﷺ نے کبھی اپنی قوم کے لئے ہلاکت کی دعا نہ فر مائی ۔
آخری بات: مذکورہ طریق کار کو اپنانے کے ساتھ ساتھ بہت سی ایسی خوبیاں ہیں جن کا مبلغ کے اندر ہونا از بس ضروری ہے بصورت دیگر نا کامی کی زیادہ امید ہے۔مثلا خوف خدا وندی ۔حلم وبرد باری ۔عفو و درگزر وغیرہ۔ایسی خوبیاں ہیں جن کے بغیر اس سنگلاخ وادی سے گزرنا نہایت مستبعد ہے۔اس لئے ایک مبلغ کو ان صفات سے متصف ہونا نہایت ضروری ہے۔
بیٹا ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں باپ،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں شوہر،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں مالک،سیرت مصطفیﷺ کے آئینے میں بھائی ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں رشتہ دار ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں پڑوسی،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مہمان اور میزبان،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مسافر،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مدد اور تعاون،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں کسب و تجارت،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں ادائیگئی حقوق،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں