مسافر،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں



ہر انسان اپنی دینی و دنیوی ضرورتوں کے پیش نظر سفر کرتا ہے چنا نچہ آپ ﷺ نے بھی مختلف سفر فر مایا اور اس کے آداب اپنی امت کو سکھایا جو ہر مسافر کے لئے ایک بہترین نمونہ عمل ہے ۔اس لئے ذیل میں اس کے آداب تحریر کئے جاتے ہیں ،بغور پڑھئے اور عمل کرکے اس کی برکتوں سے فا ئدہ اٹھایئے۔
سفر کے لئے دن کا انتخاب: یوں تو ہر دن سفر کے لئے روانہ ہونا جائز ہے مگر حضور علیہ الصلاۃ والسلام جمعرات کے دن سفر کرنا پسند فر ماتے تھے ۔چنانچہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ غزوہء تبوک کے لئے جمعرات کے دن روانہ ہوئے اور آپ ﷺ جمعرات کے دن سفر کے لئے روانہ ہونے کو پسند فر ماتے تھے ۔ [بخاری، حدیث:۲۹۵۰، مسلم، حدیث: ۲۷۶۹]
سفر میں ساتھی کا ہونا :حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا:تنہائی کی خرا بیوں کے بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں اگر دوسرے لوگ جانتے تو کوئی سوار رات میں تنہا نہ جاتا۔[بخاری،حدیث:۲۹۹۸]
ساتھیوں میں سے کسی ایک کو امیر بنا نا: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا:جب سفر میں تین شخص ہوں تو ایک کو امیر یعنی اپنا سردار بنا لیں۔ [ابوداؤد،حدیث: ۲۶۰۸]
اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ:اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھیوں کے حق میں بہتر ہے اور بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے حق میں بہتر ہے۔ [ترمذی، حدیث: ۱۹۴۴]
نیز سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا:سفر میں قوم کا سردار وہ ہے جو ان کی خدمت کرے ۔ جو شخص خدمت کرنے میں آگے بڑھ گیا تو شہادت کے سوا کسی عمل سے دوسرے لوگ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔[شعب الایمان،حدیث:۸۴۰۷]
گھر سے نکلتے وقت کی دعا:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:جب حضور ﷺ سفر کے لئے(گھر سے)نکلتے تو یہ دعا پڑ ھتے ۔
اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الأَهْلِ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ ، وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ ، وَسُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الأَهْلِ وَالْمَالِ ، اللَّهُمَّ اطْوِ لَنَا الأَرْضَ ، وَهَوِّنْ عَلَيْنَا السَّفَرَ.[ابو داود،حدیث:۲۵۹۸،تر مذی، حدیث: ۳۴۳۸]
سواری پر سوار ہونے کے وقت کی دعا: حضرت علی بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ :میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر تھا ،ایک جانور ان کی سواری کے لئے لایا گیا تو جب آپ نے رکاب میں اپنا پاؤں رکھا تو تین مرتبہ بسم اللہ پڑھا ،پھر جب جانور کی پشت پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے تو ’ الحمد للہ ‘ کہاپھر یہ دعا پڑھی۔
سُبْحَانَ الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ ۔ پھر تین مرتبہ ’ الحمد للہ ‘ اور تین مرتبہ’ اللہ اکبر ‘ کہاپھر یہ دعا کیا: سُبْحَانَكَ إِنِّى قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِى فَاغْفِرْ لِى فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ. ۔پھر آپ ہنسے،راوی کہتے ہیں کہ :میں نے پوچھا کہ:اے امیر المومنین! آپ کس وجہ سے ہنسے؟حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فر مایا : میں نے حضور ﷺ کو ایسے ہی کرتے دیکھا جیسا کہ ابھی میں نے کیا پھر جب حضور ﷺ ہنسے تو میں نے پوچھا کہ:یا رسول اللہ ﷺ! آپ کیوں ہنسے؟آپ ﷺ نے فر مایا: بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جب بندہ یہ کہتا ہے: رَبِّ اغْفِرْ لِى ذُنُوبِى إِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ غَيْرُكَ، اے رب !میرے گنا ہوں کو بخش دے کیونکہ تیرے سوا کو ئی گنا ہوں کو بخشنے والا نہیں ہے۔ دتر مذی،حدیث:۳۴۴۶،ابوداود،حدیث: ۲۶۰۲]
سفر میں کسی جگہ ٹھہرنا: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ کسی جگہ پر قیام فرماتے تھے نہ کسی جگہ سے رخصت ہوتے تھے مگر وہاں پر دو رکعت نماز ادا فر مالیتے تھے۔ [المستدرک للحاکم،حدیث: ۱۱۸۸،۲۴۹۲]
حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ جب کسی جگہ اترتے تو الگ الگ گھا ٹیوں اور وادیوں میں ٹھہرتے ،رسول اللہ ﷺ نے فر مایا: تمہارا الگ الگ ہو کر ٹھہرنا شیطان کی جانب سے ہے ۔ اس کے بعد صحابہ کرام جب کسی منزل میں اترتے تو مل کر ٹھہرتے۔[ابو داؤد،حدیث: ۲۶۲۸]
سفر سے واپسی: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا:سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے ،سونا اور کھانا پینا سب کو روک دیتا ہے ۔لہذا جب کام کر لو گھر کو جلدی واپس ہو جاؤ۔[ مسلم،کتاب الامارۃ،باب السفر قطعۃ من العذاب ،حدیث:۴۹۶۱]
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:جب سفر سے کو ئی واپس آئے تو گھر والوں کے لئے کچھ ھدیہ لائے اگر چہ اپنی جھولی میں پتھر ہی ڈال لے۔[کنز العمال،کتاب السفر، حدیث:۱۷۵۰۲]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے فر مایا:جب کسی کے غائب ہونے کا زمانہ طویل ہو یعنی بہت دنوں کے بعد گھر پہ آئے تو رات کے وقت اپنی بیوی کے پاس نہ آئے ۔دوسری روایت میں ہے کہ:حضور ﷺ نے ان سے فر مایا کہ:اگر رات میں مدینہ میں داخل ہوئے تو بیوی کے پاس نہ جانا جب تک وہ بناؤسنگار کر کے آراستہ نہ ہو جائے۔(بخاری ،حدیث:۵۲۴۴]
مقصد یہ ہے کہ اچانک اپنی بیوی کے پاس نہ جائے بلکہ پہلے سے خبر کردے۔کیونکہ اچانک جانے سے ہو سکتا ہے کہ وہ ایسی حالت میں ہو جو اسے ناپسند ہو تو یہ الفت و محبت میں کمی کا اور بسا اوقات نفرت کا سبب بن جائے گا۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:نبی کریم ﷺ سفر سے دن میں چاشت کے وقت تشریف لاتے ۔ تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے ۔پھر لوگوں کے لئے مسجد ہی میں بیٹھ جاتے۔[ مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین،حدیث:۱۶۵۹]
سفر سے واپس ہونے کے بعد کی دعا: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ ﷺ جب سفر سے واپس آتے تو یہ دعا پڑھتے۔ آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ۔[تر مذی،حدیث: ۳۴۴۰]



متعلقہ عناوین



بیٹا ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں باپ،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں شوہر،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں مالک،سیرت مصطفیﷺ کے آئینے میں بھائی ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں رشتہ دار ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں پڑوسی،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مہمان اور میزبان،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مدد اور تعاون،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں کسب و تجارت،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں دعوت وتبلیغ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں ادائیگئی حقوق،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں



دعوت قرآن