مدد اور تعاون،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں



ہر معاشرے میں کچھ غریب ،فقیر ،بیوہ، نادارا ور یتیم لوگ رہتے ہیں جنہیں اپنے بھائیوں کی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔رسول اکرم ﷺنے خود زندگی بھر ایسے لوگوں کی امداد فر مائی اور اپنے در پہ آنے والے کسی سوالی کوخالی واپس جانے نہ دیا چنانچہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:کبھی ایسا نہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی چیز کا سوال کیا گیا ہو اور آپ نے’ نہیں ‘ فرمایا ہو۔ [مسلم،حدیث:۲۳۱۱]
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ایک شخص نے رسول اللہ ﷺسے دو پہاڑوں کے درمیان چر رہی تمام بکریاں مانگی تو آپ ﷺنے اسے دے دیا ،وہ شخص اپنی قوم کے پاس آیا اور کہا:اے میری قوم کے لوگو!اسلام لے آؤکیونکہ محمد(ﷺ) اتنا عطا فر ماتے ہیں کہ پھر کسی غریبی اور فقیری کا کوئی اندیشہ نہیں رہتا ہے۔[مسلم،حدیث: ۲۳۱۲]
اسی طرح حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا آپ کی صفات عالیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فر ماتی ہیں کہ:(یارسول اللہ ﷺ! ) بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ،لوگوں کا بوجھ اٹھا تے ہیں ،اپنی کمائی سے بیواؤں،یتیموں،غریبوں اور ناداروں کی امداد فر ماتے ہیں ، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اوراگر کسی پر مصیبت آجائے تو اس کی امداد کرتے ہیں اور مشکل حالات میں بھی حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ [بخاری،حدیث: ۳]
یہاں تک کہ آقائے کریم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم نے ایسے تمام لوگوں کی ذمہ داری اپنے اوپر لے رکھی تھی جو قرض کی حالت میں انتقال کر جاتے اور اپنے پیچھے اپنی بیوہ اور یتیم بچے چھوڑ جاتے۔چنانچہ روایت ہے کہ:حضور ﷺ نے ارشاد فر مایا:جو تم میں سے انتقال کر جائے اور مال چھوڑے تو وہ اس کے وارث کا ہے اور جو قرض ،بیوہ و یتیم چھوڑے وہ سب میرے ذمہ ہیں۔[بخاری ،حدیث: ۵۳۷۱]
اس طرح سے آپ ﷺ نے معاشرہ کے نادار افراد کی امداد فر مائی اور اپنی امت کو بھی اس کی تر غیب دی اور اس پر اجر عظیم کی بشارت عطافر مائی۔چنا نچہ اس بارے میں کثیر احادیث طیبہ وارد ہیں۔یہاں مختصرا کچھ تحریر کیا جاتا ہے۔پڑھئے اور ان پر عمل کرکے ان عظیم ثوابوں سے اپنے دامن کو بھر یئے۔
بیوہ اور یتیم ومسکین کی امداد کی فضیلت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:بیواؤں اور مسکینوں کے لئے کوشش کرنے والا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی طرح ہے جو دن میں روزے رکھتا ہے اور رات کو قیام کرتا ہے۔(یعنی بیواؤں اور مسکینوں کے لئے کوشش کرنے والوں کو ایسا ہی ثواب عطا کیا جا تا ہے جیسے اللہ کے راستے میں اسلام کے دشمنوں سے جہاد کرنے والوں کو دیا جاتاہے یا اس شخص کو دیا جاتا ہے جو ہمیشہ دن میں روزہ رکھتا ہے اور رات کو اٹھ کر نماز پڑھتا ہے۔)۔ [بخاری،حدیث:۶۰۰۶،۶۰۰۷،مسلم،حدیث: ۲۹۸۲]
حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا:میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طرح سے ہوں گا،حضور ﷺ نے یہ فر ماتے ہوئے اپنی شہادت اور بیچ والی انگلی کو ملا کر دکھایا۔[بخاری،حدیث: ۶۰۰۵]
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فر مایا:جو شخص مسلمانوں کے بیچ (یعنی دوسرے لوگوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ خود)کسی یتیم کی پرورش کرے تو اللہ تعالیٰ اسے یقینی طور پر جنت میں داخل فر مائے گامگر یہ کہ کوئی ایسا گناہ کر لے جس کی بخشش نہیں ہوتی۔(جیسے شرک اور کفر)۔[تر مذی،حدیث: ۱۹۱۷]
عام مسلمانوں کی امداد کی فضیلت: حدیث: ۱۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا:ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ،نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے ،اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے ،جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کو پوری فر ماتا ہے ،اور جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی کوئی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فر مائے گا۔اور جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیوب کو چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب کو چھپائے گا۔[بخاری،کتاب المظالم،حدیث:۲۳۱۰،مسلم،کتاب البر والصلۃ ،باب تحریم الظلم،حدیث: ۱۹۹۶ ]
حدیث:۲۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اکرم ﷺنے ارشاد فر مایا:جو شخص کسی مسلمان کی کوئی دنیاوی تکلیف دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی مشکلات میں سے کو ئی مشکل دور فر مائے گا ،جو شخص دنیا میں کسی تنگ دست کے لئے آسانی پیدا کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لئے آسانی پیدا فر مائے گا ،اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فر مائے گا۔اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔ [مسلم،کتاب الذکر والدعا، حدیث:۲۶۹۹، ترمذی،حدیث:۱۴۲۵،ابوداؤد،۴۹۴۶]
حدیث:۳۔ حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ،دونوں روایت کرتے ہیں کہ:حضور نبی اکرم ﷺ نے فر مایا:جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے کام کے سلسلے میں چلتا ہے یہاں تک کہ اسے پورا کردیتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس پر پانچ ہزار (اور دوسری روایت میں ہے کہ)پچھتر(۷۵) ہزار فر شتوں کا سایہ کر دیتا ہے ۔وہ فرشتے اس کے لئے اگر دن ہوتو رات ہونے تک اور رات ہو تو دن ہونے تک دعائیں کرتے رہتے ہیں اور اس پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں ۔اور اس کے اٹھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کے لئے نیکی لکھی جاتی ہے اور اس کے رکھنے والے ہر قدم کے بدلے اس کا ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔ [شعب الایمان للبیہقی،حدیث:۷۶۶۹،المعجم الاوسط للطبرانی ، حدیث: ۴۳۹۶]
اس کے علاوہ رسول اکرم ﷺ نے اپنی امت کے غرباء وفقراء اور دیگر ضرورتمندوں کے لئے زکوٰۃ و صدقات کی صورت میں ایسا مظبوط ومستحکم نظام قائم فرمایا کہ جس پر عمل کرنے کے بعد مسلم معاشرے میں کسی غریب و فقیر کا نظر آنا نہایت مشکل ہے۔مگر افسوس صد افسوس اس پر عمل نہ ہونے یا غلط طریقے سے عمل ہونے کے باعث آج سب سے زیادہ غرباء وفقراء مسلمان ہی نظر آتے ہیں۔مسجد کے گیٹ ہو یا مزار ات کے دروازے ٹرین ہو یا اسٹیشن ،ہر جگہ ایسے لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ کو ہر وقت دیکھی جا سکتی ہے ۔
بلکہ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ تنگ دستی سے پریشان لوگ عیسائی مشینریوں اوربد مذہبوں کی امداد کے بدلے اپنے ایمان کو فروخت کرنے پر مجبور نظر آرہے ہیں۔اور وہ لوگ اس کا بھر پور فا ئدہ اٹھا رہے ہیں۔آہ۔ہمارے بھائی کچھ سو چتے۔اوراس کی طرف توجہ دیتے ۔ اور جو لوگ اپنے رب کی دی ہوئی وسعت و تر قی کے باوجود ایسے ضروتمند وں کے لئے خرچ نہیں کرتے ذرا ان آیات کریمہ کو پڑھیں ۔اور غر یبوں کی امداد نہ کر نے کے وبال کو سمجھیں۔
اللہ تعالی ایسے لوگوں کے متعلق حکم دے گا:’’ اس کو پکڑ لو،اس کی گردن میں طوق ڈال دو ، پھر اسے بھڑکتی آگ میں پھینک دو ،پھر اسے ستر گز لمبے زنجیر میں جکڑ دو،یہ(بد بخت)خدا وند عظیم پر ایمان نہیں لایا تھا اور نہ ہی وہ غریبوں کی خوراک مہیا کرنے کی ترغیب دیتا تھا‘‘۔ [سورہ الحاقہ،آیت: ۳۰تا ۳۴]
[جنتی جہنمیوں سے پوچھیں گے]کس گناہ کی وجہ سے تم جہنم میں پہنچے؟وہ جواب دیں گے۔ہم نماز نہیں پڑ ھتے تھے اور نہ ہی مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔[سورہ مدثر،آیت:۴۳۔ ۴۴]
نیکی بس یہی نہیں ہے کہ نماز میں تم اپنا رخ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو ،بلکہ نیکی کا کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان لائے اللہ پر اور روز قیامت پر ،فر شتوں اور کتاب پر اور سب نبیوں پر ،اور اپنا مال اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے رشتہ داروں ،یتیموں ،مسکینوں ،مسافروں اور مانگنے والوں کودے اور غلاموں کو آزاد کرائے۔[سورہ بقرہ،آیت: ۱۷۷]
اس کے علاوہ ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کرنے پر دنیا اور آخرت میں جس عظیم کا میابی کی بشارت دی گئی ہے اسے پڑ ھ کر جی تو یہی چا ہتا ہے کہ اپنا سب کچھ لٹا کر اپنے رب کریم کی خوشنودگیا ں حاصل کر لی جائیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق خیر سے نوازے۔ آمین



متعلقہ عناوین



بیٹا ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں باپ،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں شوہر،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں مالک،سیرت مصطفیﷺ کے آئینے میں بھائی ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں رشتہ دار ،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں پڑوسی،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مہمان اور میزبان،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں مسافر،سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں کسب و تجارت،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں دعوت وتبلیغ، سیرت مصطفی ﷺ کے آئینے میں ادائیگئی حقوق،سیرت مصطفیٰ ﷺ کے آئینے میں



دعوت قرآن