ملحدین کا ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ اسلامی نظام قانون میں مختلف مجر موں کے لئے جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں ،مثلا زنا کر نے والے کو کوڑے مارنا یا سنگسار کر دینا،چوری کر نے والے کے ہاتھ کو کاٹ ڈالنا ،یہ سب مناسب سزائیں نہیں ہیں بلکہ انسانیت کے ساتھ ظلم ہے۔اس لئے آج کے ترقی یافتہ دور میں ان سزاؤں کو بدل کر کچھ ایسی سزا مقرر کرنی چاہئے جو عام طریقے سے جمہوری ممالک میں رائج ہیں۔جیسے جیل یا جر مانہ وغیرہ۔
اسلامی سزاؤں پر اعتراض کرنے والوں کی باتوں کو رد یا قبول کرنے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ جمہوری ممالک میں اسلامی قوانین کو چھوڑ کر جو قوانین جرائم کی روک تھام کے لئے رائج کئے گئے اس کا تجربہ کیسا رہا؟ وہ جرائم کو روکنے میں کامیاب رہا یا ناکام؟ اس کے لئے ہم ایک نظر پہلے اپنے ہی ملک بھارت پر ڈالتے ہیں،پھر دوسرے ممالک پر۔
این،سی،آر،بی۔بھارت کے"نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو "کے مطابق ملک بھر میں عورتوں کی عزت وناموس کے خلاف جرم کرنے والے والوں کی تعداد ۲۰۱۵ ء میں [۳۲۹۲۴۳]تین لاکھ انتیس ہزار دو سو تینتالیس تھی۔ اور ۲۰۱۶ ء میں[۳۳۸۹۵۴] تین لاکھ اڑتیس ہزار نو سو پینتالیس۔ اور ۲۰۱۷ء میں[۳۵۹۸۴۹] تین لاکھ انسٹھ ہزارآٹھ سو انچاس۔اور ۲۰۱۸ ء میں[۳۷۸۲۷۷] تین لاکھ اٹھہتر ہزار دو سو ستہتر۔ اور ۲۰۱۹ ء میں [۴۰۵۸۶۱] چار لاکھ پانچ ہزار آٹھ سو اکسٹھ ۔ مجرموں کا نشانہ بننے اور جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی عورتوں میں ۶/سال سے کم عمر کی بچیوں سے لے کر ۶۰/سال اوپر کی عمر تک کی عورتیں بھی شامل ہیں،ان میں کئی ایسی بھی ہیں جن کے ساتھ درندہ صفت لوگوں نے پہلے زنا بالجبر کیا اور پھر قتل کر دیا،کسی کو جلا دیا اور کسی کو مار کر درخت پر لٹکا دیا۔
این سی آر بی کے مطابق ۲۰۱۹ میں بھارت کے اندر ہر دن اوسطا ً ۸۷/ عورتیں ظالموں کا نشانہ بنیں ۔ پڑوسی ملک پاکستان کی صورت حال بھی اس سے کچھ کم نہیں ہے۔ اور ان سے زیادہ برا حال ان ممالک کا ہے جو ترقی یافتہ ممالک کی لسٹ میں سر فہرست ہیں ۔جیسے امریکہ،بر طانیہ،اور فرانس وغیرہ۔ امریکہ میں ہر سال ۱۰/لاکھ عورتیں جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں،بر طانیہ میں اوسطا ہر سال ۸۵ /ہزار خواتین ریپ کا شکار ہوتی ہیں اور فرانس میں ہر سال ۷۵/ہزار ریپ کا گھناونہ جرم ہوتا ہے۔ یہ تعداد وہ ہیں جو حکومتی رجسٹروں میں درج ہوئے ان کے علاوہ جو واقعات ہیں اس کی تعداد ان سے بھی زیادہ ہیں۔
جرائم کے واقعات میں کچھ اتنے دلدوز اور سنگین ہیں کہ جن سے روح کانپ جاتی ہیں،اور جمہوری ممالک کے ناخداؤں کو سوچنے پر مجبور کر دیتےہیں۔جیسے ۱۶ دسمبر ۲۰۱۲ کی رات کو دہلی میں نربھیا کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ،جس میں ظالموں نے درندگی کی تمام حدوں کو پار کر دیا تھا۔ریپ کے بعد خاتون کو چلتی بس سے پھینک دیاتھا۔ اتر پردیش کے ضلع ہاتھرس میں۲۹ ستمبر ۲۰۱۹ کو پیش آنے والا واقعہ جو اس قدر سنگین تھا کہ موت کے بعد خاتون کی چتا کو رات کی تاریکی میں لوگوں سے چھپا کر جلایا گیا۔ اسی طرح ۲۰۱۸ میں کشمیر کے علاقہ کٹھوعہ میں ۸/سالہ بچی کا واقعہ، ۲۰۱۴ میں بدایوں میں دوبہنوں کے ریپ کے بعد مار کر لاش کو درخت سے لٹکانے کا واقعہ۔
یہ ہیں وہ نتائج جو اسلامی قانون اور اس کے نافذ کرنے کے طریقے کو چھوڑ کر لوگوں نے خود سے بنایا ۔ جو سو فیصد ناکام رہا ہے۔اس تجربے اور نتیجے کے بعد بھی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ اسلامی سزائیں مناسب نہیں ہیں وہ در اصل انسان نہیں بلکہ شیطان ہے جو شیطانی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔
یہ سب جانتے ہیں کہ ،انسانی جسم کو مہلک امراض سےبچانے کے لئے اس کو چیر پھاڑکر اس میں سے غلط مادے کو نکال باہر پھینکنا ،انسانیت کے ساتھ ظلم نہیں بلکہ انسانیت کے ساتھ سب سے بڑی ہمدردی اور محبت ہے ۔اسی لئے جو لوگ یہ کام کرتے ہیں پوری دنیا انہیں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور اس کے احسان کے سامنے سر خمیدہ نظر آتی ہے۔
اسلام خالق انسانیت کی طرف سے نازل کردہ ایک مقدس اور انتہائی پاکیزہ مذہب ہے جو اُ خروی سر فرازی کے ساتھ انسانوں کے لئے دنیاوی ماحول کو پُر امن اور طمانیت بخش بنانے کا سب سے بڑا علمبر دار ہے۔اس لئے یہ اُن تمام سر چشموں کو بند کرتا ہے جہاں سے برائیاں جنم لیتی ہیں اور ساتھ ہی برائیوں کا بالکلیہ صفایا کر کے دنیا کو جنت زار بنا تا ہے۔اور جب کوئی شخص دنیا کی پُر امن فضا کو انسانوں کے لئے اپنے گھٹیا کردار وعمل سے مکدر کر تاہے۔تو اسلام چند حدود و قیود کے ساتھ اُسے ایسی سزا دیتا ہے جو انسانوں کے لئے رحمت ہی رحمت ہے۔
چنانچہ تاریخ اور دستاویزات اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ جب تک اسلامی قوانین دنیا کے جس خطے میں بھی پوری طرح نافذرہا وہ جگہ امن و امان سے بھری رہی اور لوگ اطمینان کی سانس لیتے رہے۔
مگر جب جب اورجہاں جہاں انسانوں نے اپنے خالق و مالک کے قوانین سے بغاوت کر کے اپنی عقل سے بنائے ہوئے قوانین کونافذکیا ،یا خدائی قوانین میں بال برابر بھی تر میم کیا ،وہاں سے امن کا پر ندہ اڑ گیا ،اور دنیا جہنم بن کر رہ گئی۔جہاں نہ کسی کو اپنی عزت محفوظ نظر آتی ہے نہ سر مایہ محفوظ نظر آتا ہے۔نتیجہ کے طور پر ہر کوئی پر یشان اور بے اطمینانی کے ساتھ ہزاروں الجھنوں میں گھر کے رہ گیا ہے۔اور ایک سچے انسان کی روح تڑپ تڑپ کے دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔
آئے دن ہو نے والے واقعات و حادثات سے یہ بات روز روشن کی طر ح عیاں ہے کہ ۔اس قانون نے جسے دنیا اسلامی قانون کے مقابلے میں زیادہ اچھا گمان کیا تھا ،ایک مجرم کی جان بچانے کے چکر میں ہزاروں بے قصور انسانوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے آپ خود ہی فیصلہ کر یں کہ مجرم کو مارنا انسانیت کے ساتھ ظلم ہے؟یا ایک مجرم کو بچانے کے چکر میں ہزاروں بے قصور انسانوں کو مار دینا ظلم ہے؟؟؟یقینا سب کا فیصلہ ایک ہی ہوگا کہ بے قصور انسانوں کو مار نا ہی ظلم ہے۔اب آپ خود اپنے دل سے پوچھیں کہ کو ن سا قانون رحمت ہے اور کون سا زحمت؟؟؟
آج انسانیت بلک بلک کر رو رہی ہے ،اور پوری دنیا دردوغم سے کراہ رہی ہے۔جرائم کا گراف گھٹانے کی بے انتہا کو ششیں کی جارہی ہیں مگردن بدن اس میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔پہلے صرف بالغ لڑ کیوں کے ساتھ زنا بالجبر ہوتا تھا اور اب نابالغ بچیوں کے ساتھ بھی ریپ ہو رہے ہیں،پہلے صرف جوان آوارہ
لڑ کےکرتے تھے اب تقدس کا لبادہ اوڑھے سادھو سنت بڈ ھے بھی اپنی ہوس کی آگ بجھا رہے ہیں ، یہ جدید تہذیب کے منہ پر قدرت کا زبر دست طمانچہ ہے۔جس کا احساس اب خدائی قوانین سے بغاوت کرنے والے بھی محسوس کر رہے ہیں،جس کا سب سے بڑا ثبوت اس قسم کے جرائم کے سامنے آنے کے بعد لوگوں کی رائے عامہ ہے۔کوئی نام کی وضاحت کے ساتھ کہتا ہے کہ اسلامی قوانین پر عمل کئے بغیر ہم اس مسئلے کی روک تھام نہیں کر سکتے اور کوئی اسلام کا نام لئے بغیر اس کی بیان کردہ سزا کا مطالبہ کر تا ہے۔اور جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے ہیں ان کا یہ احساس بڑ ھتا ہی جا رہا ہے۔شاید انہیں کسی منزل پر یقین بھی آجائے مگر سب کچھ گنوا کے ہوش میں آئے تو کیا ہو گا۔
یہ سچ ہے کہ تاریکی جیسے جیسے گہری اور مہیب ہوتی جاتی ہے روشنی کا وجود اتنا ہی واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔مگر تعصب و تنگ نظری ،عناد وحسد کا دنیا میں کوئی علاج نہیں۔یہ زمینی حقیقت ہے کہ آج کے اس ظلم سے بھری دنیا کو کوئی قانون بحر ظلمات سے ساحل امن پر لا سکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔جو انسانوں کا بنایا ہوا نہیں بلکہ انسانوں کے پیدا کر نے والے کی طرف سے انسانوں کے لئے ایک عظیم تحفہ ہے۔اسلام پر اعتراض کر نے والے پہلے اپنے قوانین کے اثرات پر غور کر لیں تو اعتراض کی زحمت ہی نہ کرنی ہو گی۔
جب اللہ تعالیٰ دکھتا ہی نہیں تو کیسے مانیں؟ قرآن میں کافروں کو قتل کرنے کا حکم؟ پردہ کیوں؟ قربانی میں جانوروں کو کاٹ کر کیا فائدہ؟ تعدد ازواج عورتوں کے ساتھ ناانصافی ہے؟ طلاق کی ضرورت کیا؟ مرتد کی سزا قتل کیوں؟