اس وقت ملکی بلکہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے عائلی قوانین یاپرسنل لا ء پرجو اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ اسلام نے مرد کوایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے۔ یہ عورتوں پر سراسر ظلم اور ان کے ساتھ نا انصافی ہے، اسے ختم ہونا چاہیے۔
ان باتوں سے متأثر ہو کر بہت سارے مسلمان کہے جانے والے دانشوران بھی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چار شادیوں کا ثبوت قرآن میں نہیں ہے، بلکہ یہ بعد کے مولویوں اورمذہب کے ٹھیکیداروں کی ایجاد ہے۔ اسی طبقہ میں وہ لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ چار شادیوں کا ذکر قرآن میں موجود تو ہے لیکن یہ ایک خاص ماحول میں تھا، اب وہ حالات نہیں رہے اس لیے اس پر عمل نہیں ہوسکتا۔ یہ سب اپنی عقل کو طاق نسیاں پر رکھ کرمغرب کی اندھی تقلید اور ان سے مرعوب ہونے کا نتیجہ ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ بے شک اسلام خاص حالات میں چند شرائط کے ساتھ اس کی اجازت قیامت تک دیتا ہے۔
اسلام سے پہلے بھی دنیا میں ہر مذہب اور معاشرےکے اندر ایک سے زیادہ شادیوں کا رواج تھا، یہودیوں اور ہندؤں کے مذہب میں تو کوئی قید ہی نہیں تھی اسی وجہ سے ان کی تاریخ میں ایک ایک مرد کی پچاس پچاس اور کبھی اس سے بھی زیادہ بیویوں کا ذکر ملتا ہے۔اور عیسائیوں کا معاملہ ایسا تھا کہ وہ تو انسانی فطرت کو کچل کر راہبانیت کا داعی تھا اور ایک بھی شادی کرنے کو غلط خیال کرتا تھا۔اس افراط اور تفریط سے معاشرے میں جو برائیاں جنم لے کر انسانوں کے لئے تباہی کا سامان فراہم کر رہاتھا،اس وقت دین فطرت دین اسلام نے شادی بیاہ سے متعلق جو قانون پیش کیا کہ عام حالات میں ایک شادی اورخاص حالات میں ایک سے زیادہ شادی کی اجازت ہے،لیکن مختلف شرائط کے ساتھ اور صرف چار کی حد تک۔یہ قانون انسانی فطرت کے عین مطابق اورمردوعورت سبھی کے حق میں یکساں مفید ہے۔جس کا کوئی بھی عاقل انکار نہیں کر سکتا۔
تعدد ازواج مرد وں کے لحاظ سے: عام طور پر ایک مرد ایک ہی بیوی رکھتا ہے،آج پورے مسلم معاشرے میں ایک سے زیادہ بیوی رکھنے والے لوگ اتنے کم ہیں کہ ان کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے، لیکن شور ایسا برپا کیا جاتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ ہر مسلمان چار سے کم شادی کرتا ہی نہیں ہے۔ بہر کیف عام طور پر گو کہ لوگ ایک ہی بیوی پر قناعت کرتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ مرد کے اندر فطری طور پر ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کا رجحان ہوتاہے۔اگر کوئی ایک بیوی پر بھی رہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس کے اندر ایک سے زیادہ کی خواہش نہیں ہے۔جن لوگوں کے اندر یہ خواہش شدید ہے اگر ان کے لئے کوئی جائز راستہ نہ کھولا جائے تو یہ لوگ یقینا کسی ناجائز طریقے سے اپنی خواہش کی تسکین کا راستہ ڈھونڈھیں گے اور نتیجتاً معاشرے کو ناپاک کریں گے اور ایڈز کے ساتھ دیگر مہلک بیماریوں سے معاشرے کو بھر دیں گےجیسا کہ امریکہ ویورپ کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ان لوگوں نے ایک سے زیادہ شادی کو رد کیا تو پورا معاشرہ زنا اور بد کاری سے بھر گیا ۔ حال کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ۶۲فیصد، معاشرے میں ناجائز بچے ہیں۔آج وہاں قانوناً تو سب کی ایک ہی بیوی ہے لیکن
اکثر مردوں کے پاس"داشتائیں یعنی رکھیل عورتیں" بہت ہیں۔اور یہ عورتیں ان تمام حقوق اور عزت سے محروم ہوتی ہیں جو ایک سے زیادہ شادی کی صورت میں اسلام انہیں عطا کرتا ہے۔ اسی حقیقت سے متاثر ہو کر اب بہت ساری دانشمند یوریپین خواتین نےشادی شدہ مرد کی رکھیل کی حیثیت سے رہنے کو ٹھکڑا کر شادی شدہ مرد کی بیوی بن کر رہنے کو پسند کرنے لگی ہیں اور یہی تعدد ازواج کا اسلامی قانون ان کے اسلام لانے کا بھی سبب بن رہا ہے۔ ایک اسلام قبول کرنے والی خاتون نے کہا: ’’شوہر کی دوسری بیوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی خاندانی اور ازدواجی ذمہ داریاں آدھی ہوگئیں ۔ جبکہ حقوق میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔یہ سودا تو عورت کے حق ہی میں ہے"۔
فطرت کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ جنسی خواہش ایک فطری خواہش ہے اور جن لوگوں کے اندر یہ خواہش زیادہ ہوتی ہیں ان کے لئے ایک عورت کافی نہیں ہوتی،اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت حیض، نفاس ،حمل اور رضاعت سے مسلسل گزرتی ہے۔ان حالات میں اس کے جنسی جذبات کمزور پڑ جاتے ہیں اور مرد کےجذبات کا پوری طرح ساتھ نہیں دے سکتی۔اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ان حالات میں جنسی تعلق رکھنے میں بہت سی خرابیاں بھی ہیں۔ساتھ ہی حمل،بچے کی ولادت اور رضاعت کی وجہ سے عورت کا جسمانی نظام بہت متاثر ہوتا ہے اور وہ جلد بوڑھی ہو جاتی ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں مرد دیر تک جوان رہتا ہے۔ان وجوہات کی بنیاد پر اگر کوئی مرد ایک سے زیادہ شادی کرتا ہے تو اسے غلط ہر گز نہیں کہا جا سکتا،ہاں اس پر یہ پابندی ضرور ہونی چاہئے کہ وہ دونوں کے حقوق ادا کرے اور کسی کی حق تلفی نہ کرے۔
تعدد ازواج عورتوں کے لحاظ سے: تعدد ازواج کا قانون صرف مردوں ہی کے لئے نہیں بلکہ عورت کے حق میں بھی بڑی رحمت ہے۔
انسان کے اندر اولاد کی خواہش ایک فطری خواہش ہے،اگر کسی شخص کی بیوی بانجھ ہو اور اس سے اولاد نہیں ہو رہی ہو تو اس کے سامنے دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں۔ایک یہ کہ وہ پہلی بیوی کے ساتھ ایک اور بیوی بھی رکھ لے اور دنوں کو عزت سے رکھے۔دوسری یہ کہ وہ پہلی کو طلاق دے کر دوسری سے شادی کر لے۔ ظاہر ہے عورت کے حق میں دوسری کے مقابلے میں پہلی صورت ہی فائدہ مند ہے۔
اسی طرح عورت اگر کسی دائمی مرض میں مبتلا ہو یا کسی ایسے نسوانی عارضے کی شکار ہو جائے کہ اس کے ساتھ جنسی تعلق رکھنا مشکل ہو جائے ۔تو ایسی صورتوں میں یقینا عورت کے لئے یہی مفید ہوگا کہ اس کا شوہر اسے رکھتے ہوئے دوسری صحت مند عورت سے شادی کرلے۔نہ یہ کہ اس کا شوہر اسے طلاق دے کر دربدر بھٹکنے کے لئے چھوڑ دے اورپھر دوسری شادی کر لے۔
ایسی صورتوں میں یہ قانون بنانا کہ پہلی کو چھوڑ کر ہی دوسری سے کیا جا سکتا ہے،عورتوں کے حق میں بڑا ہی ظالمانہ قانون ہوگا اور اِس ظلم کی انتہا اس وقت ہو گی جب کہ ایسی کوئی عورت اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہواور شوہر بھی اسے ساتھ رکھنا چاہتا ہو،مگر قانون ان کو زبردستی الگ کرے۔
تعدد ازواج ایک سماجی ضرورت بعض حالات میں تعدد ازواج ایک سماجی ضرورت بھی بن جاتی ہے۔
دنیا میں اللہ تعالیٰ مرد وعورت دونوں کو پیدا فرماتا ہے،لیکن کتنے مرد ہوں گے اور کتنی عورتیں یہ اللہ ہی کو معلوم،وہی اپنی حکمت سے جس کو جتنا چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ۔اگر کوئی چاہے کہ ہمارے ملک میں صرف مرد پیدا ہوں یا کوئی چاہے کہ ہمارے یہاں صرف عورت ہوں یا اس مقدار میں مرد اور اس مقدار میں عورت، تو انسان کی یہ چاہت قدرت کے قانون میں کچھ اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ آج زیادہ ترممالک ایسے ہیں جہاں عورتوں کی تعداد مردوں کی بنسبت زیادہ ہیں۔ مثلا امریکہ، چین، یوکرین، اسٹونیہ وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں مردوں کی بہ نسبت عورتوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہیں، اس صورت حال میں اگر تعدد ازواج کی اجازت نہ ہو تو لا محالہ ان زائد عورتوں کے لئے معاشرے میں کوئی عزت واحترام کا مقام نہ ہوگا اور وہ بازار کی زینت بننے پر مجبور ہوں گی اور معاشرہ میں امراض خبیثہ کے پھیلنے کی وجہ بنیں گی یا پھر گھٹ گھٹ کر دم توڑ دیں گی۔
یوں ہی جنگوں کے موقع سے اکثر مرد مارے جاتے ہیں وہ بھی جواں سال اور صحت مند لوگ ، اگر کسی سماج میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک ساتھ بہت سارے مرد مار دئیے گئے تو ایسی صورت حال میں ان شہداء کی بیواؤں اور بچوں کو اکیلے مصیبت جھیلنے اور دربدر کی ٹھوکرکھانے کے لئے چھوڑ دینے کے بجائے ایک سماجی ضرورت بن جاتی ہے کہ صاحب حیثیت لوگ انہیں قبول کر کے باعزت طریقے سے رکھیں اور ان کا درد بانٹیں اور ان کے لئے سہارا بنیں۔اور یہ یقینا عورت کے حق میں بڑی رحمت کی بات ہے۔ لیکن برا ہو عورتوں سے جھوٹی ہمدردی جتانے والوں کا،ان کے یہاں جتنے بھی قوانین عورتوں کے لئے پائے جاتے ہیں ان سب میں ذاتی مفاد،خود غرضی کی ذہنیت اورنقصان کے سوا کچھ نہیں پایا جاتا۔ ان لوگوں کا عورتوں سے دشمنی کا حال یہ ہے کہ جیسے ہی معلوم ہوتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں پلنے والا بچہ لڑکا نہیں لڑکی ہے تو اسے ماں کے پیٹ میں مار ڈالنے کو گناہ بھی نہیں سمجھتے۔چنانچہ اقوام متحدہ آبادی فنڈ کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال انڈیا میں چار لاکھ ساٹھ ہزار لڑکیوں کو اسقاط حمل کے ذریعے مار دیا جاتا ہے۔یہ ہے اصل چہرہ عورتوں کی جھوٹی ہمدردی میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں کا۔
جب اللہ تعالیٰ دکھتا ہی نہیں تو کیسے مانیں؟ قرآن میں کافروں کو قتل کرنے کا حکم؟ پردہ کیوں؟ قربانی میں جانوروں کو کاٹ کر کیا فائدہ؟ طلاق کی ضرورت کیا؟ مرتد کی سزا قتل کیوں؟ اسلامی سزائیں انسانیت کے ساتھ ظلم ہے؟