قرآن میں کافروں کو قتل کرنے کاحکم



قرآن شریف میں ہے " وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ" کافروں کو جہاں پاؤ قتل کرو۔[سورہ بقرہ:۱۹۱]
اسلام مخالف بیان دینے والے لوگ اور سو شل میڈیا پر اسلام کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے والے حضرات اکثر اس آیت کو پیش کرکے لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ اسلام میں کافروں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے،کیونکہ مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ "کافروں یعنی غیر مسلموں کو جہاں پاؤ قتل کردو" اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کے بیان سننے یا ویڈیوز دیکھنے کے بعد غیر مسلم حضرات اسلام اور مسلمان سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اسلام دہشت گردی،لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا مذہب ہے۔
ایسے سبھی غیر مسلم بھائیوں سے جو غیر جانبدار ہو کر حقیقت تک پہونچنا چاہتے ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اسلام کیسا مذہب ہے؟ دہشت گردی کا یا امن کا؟ ظلم کا یا انصاف کا؟ صلح کا یا جنگ کا؟ اُن سے مخلصانہ گذارش ہے کہ آج کے اِس فتنے کے دور میں جب کہ دنیا میں جھوٹ ،فریب ،دھوکہ، عیاری اور مکاری ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اور اپنے فائدے کے لئےکسی بات کو توڑ مروڑ اور کانٹ چھانٹ کر پیش کرنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے،ایسی صورت میں صرف سنی سنائی باتوں پر ہر گز یقین نہ کریں اور نہیں کسی ایسے ویڈیو پر جس کا بنانے والا جان بوجھ کر لوگوں کو گمراہ کرنے ہی کے لئے بنایا ہے۔ اس کا صحیح اور آسان راستہ یہ ہے کہ اگر آپ پڑھے لکھے ہیں تو اسلام کی بنیادی کتابوں کو خود پڑھیں ،کیونکہ اسلام کے سارے احکام انہیں سے لئے جاتے ہیں یا پھر کسی اسلامک اسکالر سے پوچھیں۔
اوپر میں پیش کی گئی آیت کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے پہلے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ آپ یہ جان لیں کہ مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت کب ،کیوں اور کیسے ملی؟
تاریخ کی سبھی کتابیں یہ بتاتی ہیں کہ جب پیغمبر اسلام نے مکہ میں لوگوں کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا اور انہیں نیکی اور بھلائی کا راستہ اختیار کرنے کا حکم دیا تو بہت کم لوگوں نے آپ کی بات مانی اور زیادہ تر لوگ آپ کے مخالف بن گئے،لیکن آپ نے اپنا مشن جاری رکھا جس کے نتیجے میں دھیرے دھیرے لوگ اسلام قبول کرنے لگے،اس صورت حال میں آپ کے دشمنوں نے آپ کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا،پہلے تو بات چیت کے ذریعے،پھر دولت اور عورت کا لالچ دے کر لیکن جب اس میں ناکامی ہوئی تو وہ لوگ مار پیٹ اور ظلم وستم پر اُ تر آئے اور اسلام لانے والے لوگوں کے ساتھ خود آپ کو بھی ستانا شروع کیا۔۱۳/سال تک اِن لوگوں نے ایسے ایسے ظلم کے پہاڑ توڑے جس کی داستان آج بھی پڑھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کسی کوآگ پر لیٹایا گیا،کسی کے گلے میں رسّی باندھ کر پتھریلی زمین میں گھسیٹا گیا اور کسی کو جان ہی سے مار دیا گیا غرضیکہ جتنا وہ کر سکتے تھے وہ سب کچھ کیا۔اِن حالات میں کچھ مسلمانوں نے اپنی حفاظت کے لئے جنگ کرنے کی اجازت مانگی تو انہیں روک دیا گیا،جس کا ذکر قرآن مجید کے سورہ نساء،آیت:۷۷ میں ہے: اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَهُمْ كُفُّوْا اَیْدِیَكُمْ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ۔[نساء:۷۷] " کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا کہ تم اپنے ہاتھوں کو روک لو اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو"۔ پھر یہ بات بھی تھی مسلمان کب تک ظلم برداشت کرتے رہیں گے؟ اس لئے ۱۳/سال بعد جنگ کرنے کے بجائے یہ حکم دیا گیا کہ مسلمان اِس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جائیں، یہ بڑا ہی مشکل حکم تھا کیونکہ ایک انسان جہاں پیدا ہوا،جہاں پر اس کا دوکان اور مکان ہے کھیت اور کھلیان ہے،سب کو کیسے چھوڑ سکتا ہے۔لیکن مسلمان صرف اللہ کو راضی کرنے کے لئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر مکہ سے دور"یثرب" نامی جگہ پر چلے گئے جس کا نام بعد میں"مدینہ" رکھا گیا۔لیکن اس کے بعد بھی مکہ کے غیر مسلموں کا جوش انتقام ٹھنڈا نہیں پڑا، اور مدینہ میں آکر انہیں ختم کرنے کی دھمکی اور ان کو مٹانے کی کوشش کرنے لگے۔ اس وقت جنگ کے سلسلے میں یہ پہلی آیت قرآن مجید میں نازل ہوئی۔
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا، وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْرُ، الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّااَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ۔[سورہ حج:۳۹-۴۰]
اجازت دی گئی جنگ کرنے کی ان لوگوں کو جن سے جنگ کیا جاتا ہے،اس لئے کہ اُن پر ظلم ہوا ہے اور بے شک اللہ اُن [مظلوموں] کی مدد کرنے پر قادر ہے۔وہ جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا،صرف اس لئے کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔
اس آیت کریمہ میں وہ مکمل حالات بڑے ہی جامع لفظوں میں بیان کیا گیا ہے جن میں مسلمانوں کو ظلم کا جواب صبر سے دینے کے بجائے طاقت سے دینے کی اجازت دی گئی۔
اس اجازت کے بعد اسلامی جنگ اور جہاد کے قوانین اور اس کے مقاصد اور طریقۂ کار کی وضاحت کے لئے جو آیات نازل ہوئیں،انہیں آیات میں سےوہ آیت بھی ہے جس کا ایک ٹکڑا نوچ کر لوگوں میں غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے۔ ہم یہاں پر پہلے وہ پوری آیت پیش کرتے ہیں ۔آپ غور سے پڑھیں اور خود دیکھیں کہ دھوکے باز لوگوں نے کیسی خیانت کی ہے۔
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ، وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ وَ اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَ الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ-[سورہ بقرہ:۱۹۰-۱۹۱]
اس میں فرمایا گیا کہ : قَاتِلُوْا ۔ لڑو،قتل کرو،ظالموں سے جنگ کرو، " فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ " مگر یاد رکھو،کہ تمہارے لڑنے کا مقصد اپنے غضبانی جذبے کی تسکین کے لئے نہ ہو ،دشمن کے زرو جواہرات پر قبضہ کر نے کے لئے نہ ہو،اپنے ذاتی انتقام کی آگ بجھانے کے لئے نہ ہو ۔بلکہ اس کا مقصد صرف حق کی سر بلندی ہو،امن وسکون کا قیام ہو ،راست وپاکبازی کو پھیلانا ہو،سچائی کا پر چم لہرانا ہو ،ظلم وزیادتی کی جڑیں اکھاڑنا ہو،مظلوموں کو ظالم کے چنگل سے نکالنا ہو۔ اِن سب اعلی ٰمقاصد کی تکمیل کے لئے کن سے جنگ کرنے کی اجازت ہے۔اللہ تعالی ٰ نےاس کو ان لفظوں میں بیان فر مایا: الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَكُمْ "جو تم سے لڑتے ہیں ، جو تمہیں قتل کرتے ہیں،جو تمہیں اپنی طاقت کے بل پر باطل کے سامنے سر جھکانے پر مجبور کرتے ہیں ، جو انسانیت اور آزادی کے دشمن ہیں۔
مگر اس شر ط کے ساتھ کہ " لَا تَعْتَدُوْا " ان لوگوں سے جنگ میں حد سے نہ گزرنا،زیادتی نہ کرنا یعنی جب جنگ کا بازار گرم ہو ،جذبات اپنے شباب پر ہو،انتقام کے شعلے بھڑک رہے ہوں،اس وقت بھی تم کسی پر ظلم نہ کرنا،حد سے نہ گزرنا ،دشمن کے جو لوگ تمہارے خلاف لڑنے نہ آئے انہیں قتل نہ کر نا،ان کی عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرنا،ان کی کھیتیوں کو بر باد نہ کرنا، ان کی عبادت گاہوں کو نہ ڈھانا ،ان کے بوڑھوں کو نہ مارنا۔کیو نکہ " اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ " بے شک تمہارا رب حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
" وَ اقْتُلُوْهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ وَ اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْكُمْ " مذکورہ پابندی اور شرائط کے ساتھ ایسے لوگ جو تم سے قتل و قتال کر تے ہیں ۔ وہ حرم میں ہو ں یا حرم سے باہر جہاں ملے یعنی جہاں بھی تمہارا ان سے مڈبھیڑ ہوان کے غرور کو خاک میں ملاؤ،اور ان کا دماغ ٹھنڈا کرکے امن وآشتی کا ماحول پیدا کرو،اور ان کے ظلم کو نہ سہو بلکہ تم انہیں وہاں سے نکالو جہاں سے اس نے تمہیں نکا لا، کیو نکہ " الْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ " فتنہ انسانیت کے لئے قتل سے زیادہ سخت اور بُری چیز ہے۔ یہ ہے اس آیت کریمہ کا صاف اور سیدھا مطلب۔اب آپ خود فیصلہ کر لیں کہ یہ دہشت گر دی کی تعلیم ہے یا امن قائم کرنے کی؟
آج ہر ملک کے پاس فوج اور جنگی ساز وسامان کی کثرت ہے اورہر دن نیا سے نیا اور زیادہ سے زیادہ تباہی برپا کر نے والے ہتھیار تیار کئے جارہے ہیں،اور ملکوں کے درمیان اس کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ان سب کے کیا مقاصد ہیں اور کس لئے یہ تیاریاں ہیں؟ نیز دنیا کی ہر قوم خواہ وہ مسلم ہو یا ہندو،یہودی ہو یا عیسائی،سب میں جنگ کا تصور ہے ،اور سب کی تاریخ جنگی واقعات سے بھری ہوئی ہے۔لیکن کون کس مقصد کے لئے جنگ کرتا ہے، اور کس کے جنگی قوانین کیا ہیں ،نیز اسلامی فوج اور دوسرے افواج کے درمیان کیا فرق رہا ہے جب آپ ان سب کا تجزیاتی مطالعہ کریں گے تو ایک خوشگوار حیرت آپ کو گھیر لے گی اور آپ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ"اسلام سے زیادہ اعلیٰ مقاصد اور اس کے جنگی قوانین سے زیادہ بہتر کسی کا جنگی قانون نہیں ہےاور یہ بات سو فیصدی حق ہے کہ اسلامی جنگ بھی انسانیت کےلئے سراپا رحمت ہے"۔
یاد رکھیں ! صرف اپنے مفاد کے لئے اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والوں نے جو اسلامی جنگ کا تصور پیش کیا ہے،اس میں اور حقیقت میں جو اسلامی جنگ کا مطلب ہے،اگر آپ فرق نہیں کرتے تو آپ ایک ایسے گھنے سایہ داردرخت کی جڑ کاٹتے ہیں جو لوگوں کو آکسیجن کے ساتھ دھوپ کی تمازت سے بچا کر راحت اور سکون بھی فراہم کرتا ہے۔



متعلقہ عناوین



جب اللہ تعالیٰ دکھتا ہی نہیں تو کیسے مانیں؟ پردہ کیوں؟ قربانی میں جانوروں کو کاٹ کر کیا فائدہ؟ تعدد ازواج عورتوں کے ساتھ ناانصافی ہے؟ طلاق کی ضرورت کیا؟ مرتد کی سزا قتل کیوں؟ اسلامی سزائیں انسانیت کے ساتھ ظلم ہے؟



دعوت قرآن