بغیر دیکھے خدا پر کیسے ایمان لائیں ؟



دنیا میں رہنے والوں کی اکثریت اس بات کو مانتی ہے کہ آسمان ،زمین،چاند ،سورج ،دریا ،پہاڑ، شجر ،حجر،حیوانات،نباتات،جمادات اور ان کے علاوہ کائنات کی وسعتوں میں پائی جانے والی بے شمار مخلوقات کا کوئی نہ کوئی خالق ضرورہے۔ اگرچہ ہم اسے اپنی ظاہری آنکھوں کی روشنی سے نہ دیکھ سکیں ۔لیکن عقل کی روشنی اور دل کی بصیرت سے ہم اسے بغیر کسی تردد اور شبہے کے یقینی اور قطعی طور سے جان اور سمجھ سکتے ہیں ۔ کیونکہ ہم عقلی طور سے خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بغیر بنانے والے کے وجود میں نہیں آتی ہے۔تو پھر اتنی بڑی کائنات اور اس کا بے مثل نظام،سورج کا نکلنا اور ڈوبنا،رات کے بعد دن اور پھر دن کے بعد رات کا آنا، چاند کا ظاہر ہونا اور پھر روپوش ہو جانا ، ستاروں کا جگمگانا اور دن کے وقت نگاہوں سے اوجھل ہو جانا ،ہواؤں کا چلنا ،بادلوں کا برسنا،زمین کا اُگانا،کلی کا چٹکنا ، پھول کا کھلنا،پرندوں کاچہکنا ، اوربے شمار عجیب وغریب چیزوں کا وجود بغیر کسی بنانے والے کے کیسے وجود میں آسکتی ہے۔گویا یہ پوری کائنات خود اپنے بنانے والے کے وجود پر سب سے بڑی اور مستحکم دلیل ہے ۔جس سے کوئی بھی عقل رکھنے والا شخص صرف یہ سوچ کر کہ یہ سب اتفاقا ایک بڑے حادثے کی وجہ سے ہوگیا،منہ نہیں پھیر سکتا ہے کیونکہ ایسےاتفاقی حادثہ کا وجودخود عقل کے نزدیک محالات میں سے ہے۔اس لئے لامحالہ اور خواہی نخواہی اس بات کو مانے بغیر عقل کے لئے اور کوئی چارہ کار نہیں۔اسی لئے پوری دنیا کے لوگ کے اس بات کا ایسے ہی یقین کرتے ہیں جیسے خود اپنے ہونے کا یقین رکھتے ہیں۔ سوائے مٹھی بھر مادہ پرست مفکرین کے۔
کیا کسی بات کا یقین اور اعتقاد کے لئے دیکھنا ضروری ہے؟ ضد ،عناد اور مذہب کے خلاف اپنے بے جا تعصب سے خود کو الگ کر کے اگر یہ مفکرین انصاف کے ساتھ اس سوال کا جواب دیں تو"نہیں" کے سوا کچھ نہیں بول سکتے۔کیونکہ سیکڑوں ایسی باتیں ہیں جن پر یہ مادہ پرست افراد بھی یقین اور کامل اعتقاد رکھتے ہیں مگر اُن کو آج تک ان میں سےکسی نے نہیں دیکھا۔یہاں چند مثالیں بطور الزام اور تحقیق کےپیش ہیں۔
نمبر۱: پہاڑ پر چڑھنے میں زیادہ دشواری ہوتی لیکن اترنے میں اُتنی نہیں، پھل درخت سے ٹوٹ کر نیچے کی طرف آتا ہے اوپر کی طرف نہیں ۔کیوں؟ مادہ پرست سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زمین میں کوئی ایسی چیز موجود ہے جو پہاڑ پر چڑھتے وقت ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے،اس لئے ہمیں اس کی مخالف سمت میں جانے کے لئے مدافعت کرنی پڑتی ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے لئے دشوارہوتا ہے اور اترتے وقت موافق سمت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں آسانی محسوس ہوتی ہے۔زمین کے اندر پائی جانے والی اسی کشش والی چیز کا کرشمہ ہے کہ درخت سے پھل ٹوٹ کر زمین کی طرف آتا ہے اوپر کی طرف نہیں جاتا۔آخر زمین کے اندر وہ کیا چیز ہے جو ہمیں بلندی پر چڑھتے وقت اپنی طرف کھینچتی ہے؟ اس چیز کا نام اِن لوگوں نے "گرا ئیوٹی" یعنی "قوت کشش " دیا ہے۔ اور اسے ایک زندہ اور شبہہ سے بالا تر حقیقت مانتےہیں اور دل سے اس کی تصدیق کرتے ہیں جب کہ آج تک کسی نے بھی نہیں دیکھا ہے کہ وہ کیسی ہے،کس رنگ کی ہے؟ کس سائز کی ہے وغیرہ وغیرہ؟
نمبر۲: ایک زمانے تک لوگ مانتے رہے کہ یہ دنیا ہمیشہ سے ہے مگر دوربین کی ایجاد کے بعد جب فلکیات کے مطالعہ میں وسعت آئی توسائنسدانوں نے کہا کہ یہ دنیا ہمیشہ سے نہیں ہے بلکہ اس کا ایک آغاز ہے اور یہ آغاز ایک بڑے دھماکے کے ساتھ ہوا جسے"بیگ بینگ" کہا جاتا ہے ۔اور سائنسدانوں کے نزدیک یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان میں سے کسی نے اس دھماکے کو ہوتے ہوئے دیکھا؟ اگر نہیں تو بن دیکھے اس پر کیسے ایمان رکھتے ہیں؟
نمبر۳: ہم میں سے ہر شخص کو یہ یقین ہے کہ فلاں ہمارا باپ ہے اور فلانی ہماری ماں، مگر کیا ہم میں سے کسی نے اپنے مادہ تخلیق کو باپ کی پشت سے ماں کے رحم میں منتقل ہوتے ہوئے دیکھا ہے؟ اگر نہیں تو پھر اس پر اتنا یقین کیسے؟
نمبر۴: ہوا کو ہم میں سے کسی نے اپنی آنکھوں کی بینائی سے نہیں دیکھا کہ وہ کیسا ہے۔لیکن اس پر ایمان سب کا پختہ ہے۔
نمبر۵: پھول کے ساتھ خوشبو کا بھی وجود سبھی مانتے ہیں،لیکن پھول کے اندر خوشبو کو کسی نے بھی نہیں دیکھا اور نہیں کسی مائکرو اسکوپ یا ٹیلی اسکوپ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ایمان ہے اُس پر۔
نمبر ۶: جان،سوچ،انٹلی جینسی، یہ ساری چیزیں ہماری اس دنیا کی ایک حقیقی وجود ہے مگر کسی نے نہیں دیکھا اور نہیں دیکھا جا سکتا۔انہیں اور ان کی طرح بے شمارچیزوں کو ہم بلاواسطہ نہ دیکھ سکتے ہیں نہ جان سکتے ہیں اور نہیں سمجھ سکتے ہیں۔اس لئے ہم ان کو کسی نہ کسی چیز کے واسطے سے جانتے ہیں اور ان کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔پھر خدائے تعالیٰ کو ہی ہم بلا واسطہ دیکھ کر ماننے کی ضد پر کیوں اڑے ہوئے ہیں۔
مزید صرف یہ چند چیزیں ہی غیر مرئی نہیں ہیں جن کو بن دیکھے مانا جاتا ہے بلکہ جدید علم سائنس کے مطابق کائنات کی تمام چیز ِیں آخر کار ایک ایٹم کا مجموعہ ہے اور ایٹم الیکٹران کا مجموعہ ہے مگر الیکٹران کو کو ئی دیکھ نہیں سکتا،اس کے باوجود الیکٹران کو سبھی ایک ایسی حقیقت کے طور تسلیم کرتے ہیں جس سے انکار کی گنجائش نہیں۔
اب سوال یہ ہوتاہے کہ جو مذہب مخالف مادہ پرست سائنسداں خدا کا انکار صرف اِس وجہ سےکرتے ہیں کہ وہ ہمیں دکھائی نہیں دیتا، وہ خود آخر بہت سی چیزوں کو بغیر دیکھے کیسے مانتے ہیں؟
اس کا جواب دیتے ہوئے فرانسیسی سائنسداں ”کامیل فلامارین“اپنی کتاب ”اسرار موت“میں لکھتا ہے:
"لوگ جہالت ونادانی کی وادی میں زندگی بسر کررہے ہیں اور انسان یہ نہیں جانتا کہ اس کی یہ جسمانی ترکیب اس کو حقائق کی طرف رہنمائی نہیں کرسکتی ہے، اور اس کویہ حواس خمسہ ،کسی بھی چیز میں دھوکہ دے سکتے ہیں، صرف انسان کی عقل و فکر اور علمی غور و فکر ہی حقائق کی طرف رہنمائی کرسکتی ہیں"۔ [نقل از: علی اطلال المذہب المادی، مصنفہ فرید وجدی،جزء اول،ص:۷]
معلوم ہوا کہ یہ لوگ ظاہرمیں ہونے والی چیزوں میں غور وفکر کرتے ہیں اور پھر انہیں چیزوں کو اس کے لئے دلیل بناتے ہیں جو نظر نہیں آتی،[مگر ہوتی ضرور ہے] پھر جس طرح نظر آنے والی چیزوں کو مانتے ہیں اُسی طرح نظر نہ آنے والی چیزوں کو بھی مانتے ہیں اور اس کے حق ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔جیسے درخت سے ٹوٹ کر جب پھل اوپر جانے کے بجائے نیچے کی طرف آیا تو اِن لوگوں نے غور وفکر کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ زمین میں کوئی چیز موجود ہے جس نےاسے اپنی طرف کھینچا۔اسی لئے یہ لوگ جس طرح یہ مانتے ہیں کہ پھل درخت سے ٹوٹ کر نیچے ہی کی طرف آتا ہے اسی طرح یہ بھی مانتے ہیں کہ زمین کے اندر ضرور کوئی چیز ہے جو اسے اپنی طرف کھینچتا ہے،چاہے اس کا نام جو بھی دیا جائے۔اور یہ بالکل حق ہے اگرچہ ہم نے اُس چیز کو دیکھا نہیں کہ وہ کیسی ہے۔
جب یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اس کائنات میں موجود بے شمار حقائق کو بغیر غور وفکر اور عقلی استدلال کےصرف آنکھوں سے دیکھ کر سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔تو پھر خدا جو سب سے بڑی حقیقت ہے اُسے دیکھ کر ہی ماننے پر بضد رہنا یقینا ایک غیر معقول طرز فکر ہے۔جسے اپنا کر کوئی بھی گمراہی کی تاریکی سے نکل کر ہدایت کی روشنی میں نہیں آ سکتا۔
آخری بات: دنیا کی وہ تمام عمارتیں اور اشیاء جو ہماری پیدائش سے پہلے بنائی گئیں،یا بعد میں بنائی گئیں مگر ہم نے بنتے ہوئے نہیں دیکھا۔ان سب کو دیکھتے ہی ہم جان جانتے ہیں کہ ان عمارتوں اور چیزوں کو کسی نے بنایا ہے۔کیونکہ بغیر بنانے والے کے ان چیزوں کا وجود ہو ہی نہیں سکتا۔یہ علم اُسے بھی ہو جاتا ہے جو علم کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہو اور اُس شخص کو بھی جو کسی جنگل میں پیدا ہوا اور علم کا لفظ بھی نہیں سنا۔پھر اِس عظیم کائنات کو دیکھ کر اس کے بنانے والے کا علم کیونکر نہیں ہوگا۔ جو لوگ اس بنی ہوئی دنیا کو تو مانتے ہیں مگر اِس کے بنانے والے کو نہیں،ان کی مثال اُن لوگوں کی طرح ہے جو "لال قلعہ" کو تو مانیں مگر اُس کے بنانے والے کو نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا کو جاننے کے لئے نہیں کسی لائبریری کی خاک چھاننے کی ضرورت ہے اور نہیں کسی دور دراز سفر کرنے کی،اللہ تعالیٰ نے خود اِس کو انسان کے لئے اتنا آسان بنا دیا ہے کہ ہر شخص اپنی جگہ پر رہ کر بآسانی جان سکتا ہے۔مثلا بیان کیا گیا ہے کہ عرب کے ایک بدو سے سوال کیا گیا کہ: خدا کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ اس نے کہا: سبحان اللہ! گوبر کا ہونا جانور کو بتلاتا ہے اور قدموں کے نشان سے چلنے والے کا علم ہو جاتا ہے،تو کیا برجوں والا آسمان،اور کشادہ راستوں والی زمین اور موجوں والے سمندر کیا اُس ذات کا علم نہیں دیتا جو بڑا جاننے والا اور بڑی قدرت والا ہے؟۔
انسان دوسری تمام چیزوں کو چھوڑ کر اگر خود اپنے وجود ہی پر غور کریں تو خدا کے وجود کو مانے بغیر نہیں رہ سکتا بشرطیکہ تعصب اور تنگ نظری سے خالی ہو کر یہ کام کرے۔
مثلا ایک وقت وہ کچھ نہیں تھا،پھر ہوا، پھر نہیں رہے گا ، پھر ہوگا۔آخروہ کون ہے جس نے اسے عدم سے وجود بخشا اور پھر اسے ایک دن موت دے گا اور پھر دنیا میں جو کچھ اس نے کیا اس کا حساب لے گا،اور اچھائی پر انعام اور برائی پر سزا دے گا؟ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں اس حقیقت کوکس قدر دلنشیں انداز میں بیان فرمایا ہےملاحظہ کریں۔
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْ-ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ[سورہ بقرہ:۲۸]
تم اللہ کا انکار کیسے کر سکتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی عطا کیا،پھر وہی تمہیں موت دے گا پھر وہی تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔
ہر انسان کو یہ جان لینا چاہئے کہ اگر ہم نے اپنے بنانے والے کا انکار کیا تو ہم کبھی اپنے خالق کی اُن نعمتوں کا شکر ادا نہیں کر پائیں گے جو اس نے ہمارے فائدے کے لئے بنایا اور جس سے ہم زندگی بھر فائدہ اٹھاتے رہے۔پھر ایسی زندگی کے بعد کا انجام یقینا بڑا ہولناک ہوگا۔ العیاذ باللہ۔



متعلقہ عناوین



قرآن میں کافروں کو قتل کرنے کا حکم؟ پردہ کیوں؟ قربانی میں جانوروں کو کاٹ کر کیا فائدہ؟ تعدد ازواج عورتوں کے ساتھ ناانصافی ہے؟ طلاق کی ضرورت کیا؟ مرتد کی سزا قتل کیوں؟ اسلامی سزائیں انسانیت کے ساتھ ظلم ہے؟



دعوت قرآن