اسلام میں پردہ کیوں؟



معاشرے میں جنسی عمل کی آوارگی اور انتشار ، ایک ایسی برائی ہے جس کی کوکھ سے امراض خبیثہ کے ساتھ قوم وملت کے لئے ان گنت پیچیدہ مسائل جنم لیتے ہیں۔جس کا انجام ہلاکت وبربادی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
تاریخی روایات اس بات کی شاہد ہیں کہ جب بھی کسی قوم میں یہ برائی آئی ذلت اس کا مقدر بنی اور وہ اس طرح زوال پذیر ہوئی کہ پھر دوبارہ کبھی عروج نہ پا سکی۔یونانی اور رومی تہذیب اس کی بہترین مثال ہیں۔ ان کے بعد جدید یورپ کا طویل تجربہ ہمارے سامنے ہے۔جنسی عمل کی آوارگی ،فحاشی اور عریانی نے جدید یورپ کو جو نقصان پہونچایا ہے اور اب بھی پہونچا رہا ہے وہ بڑاہی مدہوش کن ہے۔ اس کی وجہ سے خاندانی نظام ٹوٹ گیا،لاکھوں لاکھ بچے پیدا ہوتے ہی قتل کئے جارہے ہیں،بوڑھے ماں باپ اولڈ ہاؤسز میں حسرت ویاس کے ساتھ دم توڑ رہے ہیں،ان نقصانات کو اگر نظر انداز بھی کردیا جائے تو وہ بیماریاں جو جنسی عمل کی آوارگی کے سبب پیدا ہوتی ہیں اتنے زیادہ اور مہلک ہیں کہ اسے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔
ان بیماریوں میں ایک مہلک بیماری ”ایڈز“ کی بھی ہے، جس نے سب سے پہلے ۱۹۸۱ء میں امریکہ میں جنم لیا تھا اور اس بیماری کو سوائے ”زنا اور جنسی بے راہ روی کے نتیجہ میں جنم لینے والے عذاب “ کے اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا ۔
”ایڈز“ وہ مہلک بیماری ہے جس میں انسان کے بدن کا وزن گھٹنے لگتا ہے، بخار اوردست وغیرہ کی علامات نمایاں ہوتی رہتی ہیں، دماغ بھی اس سے متاثر ہوجاتا ہے،لیکن اس بیماری کی خطرناک اور خوف ناک ترین صورت یہ ہوتی ہے کہ اس بیماری میں مریض کے جسم سے ہر قسم کی قوتِ مدافعت ختم ہوجاتی ہے۔چنانچہ اس کے بعدہلکی سے ہلکی بیماری کا بھی اس میں تحمل اور قوتِ برداشت نہیں رہتی یہاں تک کہ ایک معمولی سا عارضہ بھی جان لیوا ثابت ہوسکتا ہےچنانچہ اس بیماری میں مبتلا ہونے والے شخص کی موت یقینی سمجھی جاتی ہے ۔
اس مہلک اور خطرناک قسم کی بیماری کا سو فی صد علاج اور حل اب تک دریافت نہیں ہوسکا،بڑی کدو کاوش کے بعد جو دوائیں ایجاد ہوئی ہیں، وہ صرف عارضی تدابیر کی حیثیت رکھتی ہیں، جن سے عوارض کی شدت میں گوکہ وقتی افاقہ ہوجاتا ہےلیکن ان سے مرض ختم نہیں ہوتا بلکہ ان میں سے بعض دوائیں کچھ اور پیچیدگیاں پیدا کردیتی ہیں، جن میں خون کی حد سے زیادہ کمی اور غشی وغیرہ داخل ہیں، بعض دواوٴں کے استعمال کے دوران ہر ہفتے مریض کے جسم کا سارا خون تبدیل کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔
بہرحال ڈاکٹر حضرات اب تک کی تحقیق و جستجو اور ریسرچ کرنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس بیماری کا سب سے بڑا سبب رگ کے انجکشن کے ذریعے منشیات کا استعمال اور جنسی اختلاط کی کثرت ہے اور یہ یاتو ہم جنسی (غیر فطری عمل)سے پیدا ہوتی ہے، یا ایسے مردوں کو لگتی ہے جو بغیر کسی امتیاز کے زیادہ عورتوں سے جنسی تعلقات قائم رکھتے ہوں، نیز ایسی عورتوں کو جو زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات استوار کرتی ہوں۔
اٹلانٹا کے طبی مرکز کے ماہرین کے مطابق جو لوگ بلا امتیاز مختلف افراد سے جنسی تعلق قائم رکھتے ہیں، ا ن میں اس بیماری کی بنا پر اموات کی شرح دودہائی قبل کے مقابلے میں دوگنی ہوگئی ہے، لیکن اس بیماری کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ اس کا جرثومہ جسم میں داخل ہوجانے کے بعد ظاہری مرض کی شکل اختیار کرتے کرتے مختلف افراد میں مختلف وقت لے لیتا ہے ۔ بعض ماہرین کے خیال کے مطابق یہ دس سال تک وسیع ہوسکتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جس جنسی عمل کے ذریعے بیماری کا جرثومہ جسم میں داخل ہوا، ضروری نہیں کہ اس کے بعد جلد ہی اس کے اثرات بیماری کی شکل میں ظاہر ہوجائیں بلکہ بعض اوقات یہ اثرات دس سال بعد بھی ظاہر ہوسکتے ہیں ۔ اس حقیقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے محکمہ صحت کا اندازہ یہ ہے کہ اس وقت امریکہ میں دس لاکھ سے زیادہ افراد ”ایڈز“ کے جراثیم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور ان میں سے بھی نوے فی صد افراد کو اپنے بارے میں اس ہولناک حقیقت کا علم بھی نہیں۔
امریکہ کے علاوہ بر اعظم افریقہ میں بھی یہ بیماری کافی تیزی سے پھیل رہی ہے اور افریقہ میں بیس لاکھ سے لے کر پچاس لاکھ تک کے انسانوں کی تعداد ”ایڈز“ جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہوچکی ہے۔ امریکہ کے” محکمہٴ صحت و انسانی خدمات“ کے سیکٹری اولٹس باون کا کہنا ہے کہ ”اگر ہم اس بیماری کی روک تھام میں کوئی موٴثر پیش رفت نہ کرسکے تویوں سمجھ لیں کہ آئندہ دس سال کے اندر دنیا کے کروڑوں انسانوں کے لیے ایک عالم گیر موت کے پیغام کا خوفناک اندیشہ پیدا ہوگیا ہے“ اور جان پاپ کنس یونیورسٹی کے وبائی امراض کےماہر بی فرینک پاک نے کہا ہے کہ ”بعض ملک اپنی آبادی کا ۲۵/فیصد حصہ اس وبائی مرض میں گنوا بیٹھیں گے۔“
یہ ہے بے حیائی،فحاشی اور آوارگی کا وہ نقصان جسے ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،اور اگر کوئی لاکھوں انسانوں کے سسک کر مرنے کو بھی نظر انداز کردے تو کر سکتا ہے لیکن اسلام جو لوگوں کے لئے دین رحمت ہے کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔اس لئے وہ معاشرے میں ہر اُس چیز پر روک لگاتا ہے جو جنسی عمل کی آوارگی میں کچھ بھی کردار ادا کرتا ہے۔خواہ وہ لڑکوں کا نظر بازی کرنا ہو یا پھر لڑکیوں کا آدھا ادھورا لباس پہننا ہو، ان کا بغیر کسی حدودو قیود کےآپسی اختلاط ہو یا ایک دوسرے کو لبھانے کی کوشش کرنا ہو۔ اور اس طرح سے وہ انسانوں کو ایسی ایسی ہلاکتوں سے بچا تا ہے جسے جان کر انسان دامن اسلام کو تھامنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔اور پردے سے متعلق اسلامی قوانین کو دل کی گہرائی سے پورے فخر کے ساتھ قبول کرتا ہے۔
امریکا کی ایک ہسپانوی النسل نومسلمہ نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”جب میں مغربی لباس میں ہوتی تھی تو مجھے خود سے زیادہ دوسروں کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا، گھر سے نکلنے سے پہلے اپنی نمائش کی تیاری، ایک کرب انگیز اور مشکل عمل تھا۔ پھر جب میں کسی اسٹور، ریسٹورنٹ یا کسی ایسے مقام پر جہاں بہت سارے لوگ جمع ہوں، جاتی تھی تو خود کو دوسروں کی نظروں میں جکڑی ہوئی محسوس کرتی تھی، میں بظاہر آزاد وخود مختار ہوتی تھی،لیکن فی لحقیقت دوسروں کی پسند وناپسند کی قیدی ہوتی تھی، پھر یہ فکر بھی لاحق رہتی تھی کہ جب تک حسن اور عمر ہے، لوگ میری طرف متوجہ ہیں، عمر ڈھل جانے کے بعد خود کو قابل توجہ بنانے کے لیے مجھے اور زیادہ محنت کرنی پڑے گی، لیکن اب اسلامی پردے نے ان الجھنوں سے مجھے یکسر بے فکر وآزاد کردیا ہے۔![یہ اقتباس الحاد،ڈاٹ کام سے لیا گیا ہے]
فیمینسٹ تھیریسا کوربن نے اسلام قبول کرلیا اور حجاب اختیار کرلیا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا حجاب استحصال اور ظلم کی علامت نہیں ہے تو اس نے بڑا دلچسپ جواب دیا۔
’’ہاں میں اسکارف پہنتی ہوں۔میرا اسکارف پشت پر میرے ہاتھ نہیں باندھتا۔ یہ کیسے میرے استحصال کا ذریعہ ہوسکتا ہے؟میرا اسکارف نہ دماغ میں خیالات کے داخلہ میں کوئی رکاوٹ بنتا ہے اور نہ منہ سے اس کے اظہار کی راہ میں آڑے آتا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ میں کچھ ایسا ہی سمجھتی تھی۔میرا اسکارف البتہ مردوں کی ان ہوسناک نظروں کی راہ میں آڑے آتا ہے جو عورت کے استحصال کی پہلی کڑی ہوتی ہیں۔ یہ مجھے تحفظ اور احترام و عزت عطا کرتا ہے۔ ‘‘
یہ صرف تھریسا کوربن کا ہی خیال نہیں ہے۔ سفید فام عورتوں میں اب یہ تصور بہت تیزی سے عام ہوتا جارہا ہے۔ برطانیہ میں اندازہ یہ ہے کہ تقریباً پچاس ہزار سفید فام برطانو ی ہر سال اسلام کی آغوش میں آتے ہیں۔ ان میں ستر فیصد خواتین ہوتی ہیں۔ ٹونی بلیر کی نسبتی بہن لارن بوتھ، بی بی سی کی نامہ نگار یوان ریڈلی اور ایم ٹی کی اداکارہ کرسٹیانی بیکر وغیرہ جیسی مشہور عورتیں بھی ان میں شامل ہیں۔چند سال پہلے کیمبرج یونیورسٹی کے" سینٹر فار اسلامی اسٹڈیز "نے ایک دلچسپ اسٹڈی کی تھی۔ اس نے نومسلم برطانوی خواتین سے انٹرویو کئے اور وجہ جاننے کی کوشش کی کہ انہوں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ اس اسٹڈی کے سربراہ پروفیسر یاسر سلیمان نے آبزرور کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
’’ہم جدیدیت کے زمانہ میں ہیں۔ہماری زندگیوں کا غالب فریم ورک سیکولر ہے اور اس میں اسلام کوایسے مذہب کے روپ میں دیکھا اور دکھایا جاتا ہے جو نہایت ظالم، پرتشدداور جدید دنیا کے عقلیت پسند رویہ سے غیر ہم آہنگ ہے۔ اس کے باوجود ہر سال کچھ انتہائی ذہین، کامیاب اور دلچسپ لوگ اسلام کے عقیدہ میں اپنی الجھنوں اور سوالوں کا جواب پاتے ہیں اور اسلام کی آغوش میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کی وجہ تلاش کرنا اس اسٹڈی کا ایک اہم مقصد ہے۔‘‘
چنانچہ یہ اسٹڈی مکمل ہوئی اور مارچ 2013 میں اس کی تہلکہ مچادینے والی رپورٹ
Narratives of Conversion to Islam: Female Perspective
کے نام سے شائع ہوئی۔ اس میں اُن اعلی تعلیم یافتہ خواتین نے قبول اسلام کے جو اسباب گنائے ا ن میں سے بیشتر کا تعلق عورت اور خاندان سے متعلق اسلام کی تعلیمات سے ہے۔مثلاً کئی خواتین نے اسلام میں نکاح کے تصور اور بیوی کے مقام کو قبول اسلام کا ایک اہم سبب گردانا۔ شوہر اور بیوی کے درمیان فرائض و اختیارات کی تقسیم نے کئی خواتین کو اپیل کیا۔بعض خواتین حجاب کے تصور سے متاثر ہوئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حجاب ہی اصل فیمنسٹ علامت ہے۔ اس لئے کہ اس سے نسوانی شخصیت کا باعزت اظہار ہوتا ہے اور سماج جس طرح عورت کو جنس کی علامت بنادیتا ہے، اس کا رد ہوتا ہے۔ زوجین کے حقوق کا تصور، شوہر کی عائلی ذمہ داریوں کی تفصیلات وغیرہ نے بھی کئی خواتین کو متاثر کیا۔ حیرت انگیز طور پر ان جدید اعلی تعلیم یافتہ انگریز عورتوں میں ایسی عورتیں بھی تھیں جنہیں اسلام کے تعدد ازدواج کے اصول نے متاثر کیا۔ایک خاتون نے کہا: ’’شوہر کی دوسری بیوی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی خاندانی اور ازدواجی ذمہ داریاں آدھی ہوگئیں۔ جبکہ حقوق میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔یہ سودا تو عورت کے حق ہی میں ہے۔‘‘
اسلام لانے کے بعد ایک مشہور یورپی خاتون نے کہا کہ: میں حجاب کو پورے دل سے قبول کرتی ہوں کیونکہ اس میں مجھے اپنی عزت محفوظ نظر آتی ہے اور ساتھ ہی اس بات کا احساس بھی ہوتا ہے کہ میری ایک مستقل شخصیت ہے جبکہ مغرب کا لباس پہن کر مجھے یہ احساس رہا کہ میں مردوں کے لئے سجی ہوئی ایک دسترخوان ہوں،اس کے علاوہ میری کوئی حقیقت نہیں ہے۔
اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں پردہ کے احکام بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے،وہ مندرجہ ذیل ہیں:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ-ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ ، وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ-وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ-وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ-وَ تُوْبُوْا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۔
مسلمان مردوں کو حکم دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے، بیشک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔ اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا (بدن کاحصہ) خود ہی ظاہر ہے اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں یا اپنی (مسلمان) عورتوں یا اپنی کنیزوں پر جو ان کی ملکیت ہوں یامردوں میں سے وہ نوکر جو شہوت والے نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر اپنے پاؤں اس لئے زور سے نہ ماریں کہ ان کی اس زینت کا پتہ چل جائے جو انہوں نے چھپائی ہوئی ہے اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔[سورہ نور:۳۰۔۳۱]
یٰاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۔
اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں، یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں (یعنی لوگ ان کے پردے کی وجہ سے پہچان لیں کہ یہ شریف عورتیں ہیں) اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔ [سورہ احزاب: ۵۹ ]



متعلقہ عناوین



جب اللہ تعالیٰ دکھتا ہی نہیں تو کیسے مانیں؟ قرآن میں کافروں کو قتل کرنے کا حکم؟ قربانی میں جانوروں کو کاٹ کر کیا فائدہ؟ تعدد ازواج عورتوں کے ساتھ ناانصافی ہے؟ طلاق کی ضرورت کیا؟ مرتد کی سزا قتل کیوں؟ اسلامی سزائیں انسانیت کے ساتھ ظلم ہے؟



دعوت قرآن