رسول اکرم ﷺ بحیثیت امین



امانت داری ، رسول اکرم ﷺ کا نمایاں ترین وصف تھا ۔یہی وجہ تھی کہ قبل بعثت اہل عرب آپ ﷺ کو صادق اور امین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔اور بعد بعثت جبکہ لوگ آپ کے جانی دشمن بن گئے اور آپ ﷺ سے شدید نفرت کرنے لگے اس کے باوجود اپنی قیمتی دولت و ثروت بطور امانت آپ ﷺ کے علاوہ کسی اور کے پاس رکھناپسند نہیں کرتے تھے ۔کیو نکہ وہ خوب جانتے تھے کہ آپ ﷺ کے علاوہ اورکوئی اس لائق نہیں کہ اس پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کیا جا سکے۔شدید دشمنی کے باوجود اہل عرب کا آپ ﷺ کے پاس اپنی قیمتی امانت رکھ کر مکمل اطمینان اور سکون محسوس کرنا ۔اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ ﷺ سے بڑھ کر نہ کوئی امین ہوا اور نہ ہوگا۔
کیو نکہ تاریخ کے انبار خانوںمیں ہمیں کوئی ایسی ہستی نظر نہیں آتی کہ ان کے دشمن ان سے سخت اختلاف کے باوجود اپنی قیمتی امانتیں ان کے پاس رکھا ہو۔اور وہ بھی اس شان سے کہ ہزاروں لوگوں کے ہوتے ہوئے ان کے سوا کسی اور پر اطمینا ن نہ ہو۔
آپ ﷺ نے بھی امانت داری کا ایسا حق ادا کیا کہ اس کی مثال نہ پہلے کبھی دیکھی گئی اور نہ بعد میں دیکھی جائے گی۔چنانچہ ہجرت کی رات جب کہ مکہ والوں نے آپ ﷺ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا اور ہر قبیلے کے نوجوان مل کر رات کو آپ ﷺ کے گھر کا گھراؤکیا تاکہ آپ ﷺ جیسے ہی گھر سے نکلیں اچانک یکبارگی حملہ کر کے آپ ﷺ کو شہید کر دے ۔ قتل کے ارادے سے آنے والوں میں وہ بھی تھے جن کی امانتیں حضور ﷺ کے پاس رکھی ہوئی تھیں۔آپ ﷺ چا ہتے تو ان کی قیمتی امانتوں کو اپنے ساتھ مدینہ شریف لے کر جا سکتے تھے تا کہ آپ ﷺ اور آپ کے غریب الدیار صحابہ کو کام آتا ۔ مگراس نازک وقت میں جبکہ دنیا کا بڑا سے بڑا امین بھی امانت میں خیانت کر بیٹھتا ہے اور اس کو جائز سمجھنے لگتا ہے۔آپ ﷺ نے خیانت کرنے کا تصور بھی نہ کیا ۔چنانچہ آپ ﷺ نے ان کی امانتوں کوحضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپر د کیا اور تمام تر تفصیلات سمجھانے کے بعد ارشاد فر مایا کہ یہ فلاں فلاں کی امانتیں ہیں۔تم ان کو ان کے حوالے کر کے مدینہ آجا نا۔پھر آپ ﷺ نے ایک مشت مٹی لے کر ان گھراؤ کرنے والے نوجوانوں کی طرف پھینکا جس سے ان کی آنکھوں کی روشنی ماند پڑ گئی اور آپ ﷺ ان کے درمیان سے صاف نکل کر آگئے اور کسی نے آپ کو دیکھا بھی نہیں ۔کل ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہل مکہ کی وہ امانتیں ان کے حوالے کر کے وہ بھی مدینہ شر یف کے لئے روانہ ہو گئے۔[ملخصاََ،ضیاء النبی،جلد،۲؍ص:۵۱۔تا۔۵۹]
آپ ﷺ کی امانت داری ہر دوست و دشمن کے نزدیک تمام تر شک و شبہات سے بالاتر ہے اور کیوں نہ ہو کہ خود تمام جہان کے پالنہار حقیقی اللہ عز وجل نے اپنے پیغام کو اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے آپ ﷺکی ذات گرامی کا انتخاب فر مایااور اپنی امانت عظمیٰ کا آپ کوامین بنایا۔جسے آپ ﷺ نے نہایت حسن و خوبی سے انجام دیا ۔
الغرض: آپ ﷺ نے کبھی کسی کی امانت میں خیانت کا تصور بھی نہ کیا اور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم دی ۔کیو نکہ یہ وہ اعلیٰ صفت ہے جس سے دنیا میں امن وامان قائم کیا جا سکتا ہے اور اس سے دشمنوں کے دلوں کو بھی جیتا جا سکتا ہے۔آپ سوچ سکتے ہیں کہ جب ایک انسان کو دوسرے انسان پر بھروسہ ہی نہ ہو تو پھر آخر کون کس سے اپنے راز کی باتیں کرے گا،کون کس کے پاس اپنی عزت وشرف کی امانت رکھے گا، کون کس کے پاس اپنے قیمتی اثاثوں کو رکھنے کے لئے تیار ہوگا ۔ پھر دنیا کی حالت کیا ہو گی اس کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
چنانچہ آپ ﷺ کے صحابہ نے آپ ﷺ کی تعلیم امانت داری پر عمل کر کے اپنے دشمنوں کی زمین کے ساتھ ان کے دلوں کو جیتا اور انہیں اپنے کردار سے ثابت کر دکھایا کہ ہم ہی سچے خیر خواہ ہیں اور ہمارے ہی مذہب کے سائے تلے ہر مذہب کے لوگ اطمینان و سکون کے سائے میں اپنی زندگی گزار سکتے ہیں ۔یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام نے اپنی قلیل فوجی قوت سے دشمنوں کے ملک کو فتح کیا اور بغیر کسی پریشانی کے برسہا برس مختلف قوموں اور مذہبوں کے ماننے والے لوگوں کو ایک حکومت کے تحت جمع کئے رکھا ۔
ایسے واقعات کی ایک کثیر تعداد کتب سیرت میں مذکور ہے ۔ان میں سے ہم صرف ایک واقعہ کا تذکرہ کرتے ہیں ۔پڑ ھئے اور ان کی شان امانت داری پر قر بان جایئے۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ملک شام کے گورنر تھے ۔جب آپ کو معلوم ہوا کہ ہرقل بادشاہ ملک ِشام کو مسلمانوں سے چھیننے کے لئے ایک بہت بڑا لشکر تیار کر رہا ہے۔ اس وقت آپ کے پاس صرف ایک چھوٹی سی جماعت تھی جو دمشق شہر کی حفا ظت نہیں کر سکتی تھی تو آپ نے دمشق کے باشندوں کو جمع کر کے ان سے کہا:ہم نے آپ لوگوں سے شہر کی حفاظت کرنے کے بدلے جزیہ(یعنی ٹیکس) لیا تھا ،لیکن اب ہم ہرقل کے مقابلے میں تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے ۔اس لئے ہم جزیے کا مال تمہیں واپس کر رہے ہیں ۔کیو نکہ ہم بلا وجہ یہ مال اپنے پاس نہیں رکھ سکتے ۔چنانچہ جزیے کی مد میں لئے گئے اموال ان کے مالکوں کو واپس کر دئے گئے۔یہ نا قابل یقین منظر دیکھ کر عیسائیوں کے رہبان اور یہودیوں کے پادری اپنی عبادت گا ہوں کی طرف دوڑ پڑے اور اپنے انداز میں اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کی مدد اور بقا کی گڑگڑا کر دعائیں مانگیں اور مسلمانوں کو الوداع کرتے ہوئے انہوں نے کہا:ان شاء اللہ !تم لوگ جلد واپس آؤگے اور ہمیں ہرقل کے ظلم وستم سے نجات دلاؤگے۔(عمر بن الخطاب:جوانبہ المختلفہ وادارتہ للدولۃ،جلد۱؍ص:۲۱۳۔۲۱۴،بحوالہ:نور [سرمدی فخر انسانیت حضرت محمد مصطفی ﷺ، جلد ۱؍ص:۱۷۷۔۱۷۸]
آج ہمارے اوپر دوسروں کو تو درکنار اپنے خاص بھائیوں کو بھی بھروسہ نہ رہ گیا ۔کیو نکہ ہم اپنے محبوب آقا ﷺ سے محبت کا دعوی تو کرتے ہیں مگر آپ ﷺ کی پاکیزہ سیرت کو اپنی عملی زندگی میں اپنے لئے نمونہ نہیں بناتے ۔کتنے تو ایسے ہیں کہ وہ آقائے کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیما ت جانتے بھی نہیں ،عمل کر نا تو دور۔
آقائے کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ:تم میں سے جو یہ چا ہتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کریں تو اسے چا ہئے کہ وہ سچ بولے۔امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسی کو نہ ستائے۔[شعب الایمان،حدیث:۹۱۰۴]
اللہ تعالی ہم سب کو پیارے آقا ﷺ کی سیرت طیبہ جاننے اور اس کو اپنانے کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین بجاہ سید المر سلین صلی اللہ علیہ وسلم۔



متعلقہ عناوین



رسول اکرم ﷺ بحیثیت افضل الخلق رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبِّ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبوبِ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت عبد کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت انسان کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت رحمۃ للعا لمین رسول اکرم ﷺ بحیثیت خاتم النبیین رسول اکرم ﷺ بحیثیت صادق القول و الوعد رسول اکرم ﷺ بحیثیت حلیم رسول اکرم ﷺ بحیثیت حق گو رسول اکرم ﷺ بحیثیت عالم غیب رسول اکرم ﷺ بحیثیت شارع رسول اکرم ﷺ بحیثیت جج رسول اکرم ﷺ بحیثیت سپہ سالار رسول اکرم ﷺ بحیثیت فاتح رسول اکرم ﷺ بحیثیت امن پسند رسول اکرم ﷺ بحیثیت ماہر نفسیات



دعوت قرآن