غصہ اور جذبات سے بے خود کر دینے والی باتوں کے باوجود انتہائی صبر وتحمل سے کام لینے والے انسان کو حلیم کہا جاتا ہے ۔ایسے انسان کے سامنے جتنی بھی بیہودگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ آپے سے باہر نہیں ہوتا بلکہ حلم ووقار کا پیکربن کر پوری سنجیدگی اور متانت کے ساتھ اس کا سامنا کرتا ہے۔ایک دینی کام کرنے والے کے اندر اس صفت کا ہونا از حد ضروری ہے کیونکہ اسے ہر وقت ایسے لوگوں سے سامنا ہوتا ہے جو جاہل ،گنوار،نادان،اجڈ اور حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایسی لایعنی باتیں کرتے ہیں جس سے غصہ آنا فطری بات ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس کے اندر حلم و بردباری نہیں تو وہ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکتا ۔
اسی لئے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام کو اس خوبی سے نوازا مگر آقائے کریم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم کو جس قدر عطا فر مایا اتنا کسی کو عطا نہ فر مایا۔آقائے کریم ﷺ کی شان حلیمی کا اندازہ اس روایت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:زید بن سعنہ جو یہودیوں کا بڑا عالم تھا ،اس نے بتایا کہ حضور ﷺ کی نبوت کی جتنی علامتیں ہماری کتابوں میں بیان کی گئی ہیں میں نے ان سب کا مشاہدہ کر لیا وہ سب حضور ﷺ میں مکمل پائی جاتی ہیں مگر دو علامتیں ایسی تھیں جن کے بارے میں نے ابھی حضور ﷺ کی آزمائش نہیں کی تھی وہ دو باتیں یہ تھیں۔ ان یسبق حلمہ جھلہ۔اس کا حلم اس کے جہل سے سبقت لے جاتا ہے۔ ولا تزیدہ شدۃ الجھل الاحلما۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے جہالت اور حماقت کا جتنا مظاہرہ کیا جائے اتنا ہی حضور ﷺ کے حلم میں اضافہ ہوتا ہے۔
زید بن سعنہ کہتے ہیں کہ:میں کسی بہانے ان دو صفات کو حضور ﷺ میں دیکھنا چا ہتا تھا ۔چنانچہ میں نے اس مقصد کے لئے حضور ﷺ سے کھجوریں خریدیں اور ان کی قیمت نقد ادا کردی۔حضور ﷺ نے وہ کھجوریں میرے حوالے کرنے کے لئے ایک تاریخ مقرر فر مادی ۔ابھی اس تاریخ کے آنے میں دو دن باقی تھے کہ میں آگیا اور کھجوروں کا مطالبہ کردیا ۔میں نے حضور ﷺکی قمیص اور چادر مبارک کو زور سے پکڑ لیا اور بڑا غضبناک چہرہ بنا کر آپ کی طرف دیکھنا شروع کردیا ۔پھر میں نے حضور ﷺکا نام لے کر کہا:کیا تم میرا حق ادا نہیں کروگے؟اے عبد المطلب کی اولاد!بخدا تم بہت ٹال مٹول کرنے والے ہو۔مجھے تمہاری اس عادت کا پہلے بھی تجر بہ ہے۔
آنکھیں بند کیجئے !اور سوچئے !کہ ایک عام شخص جس کی حقیقت میں ٹال مٹول کرنے کی عادت ہو اگر اس کے ساتھ بھی کوئی ایسی کمینگی کا سلوک کرے،کہ مقرر کردہ تاریخ سے پہلے ہی مطالبہ کرنے لگے اورسر عام اس کا گریبان پکڑ کر غضبناک نگا ہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگے اور اسے برا بھلا کہے تو کیا وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھ پائے گا۔اور اگر کوئی شریف سے شریف، سنجیدہ سے سنجیدہ تر آدمی بھی ہو تو کیا اس وقت اپنے آپ کو کنٹرول کر پائے گا اور بالخصوص اس وقت جبکہ اس کے پاس اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی طاقت بھی ہو؟یقینا جواب’’ نہیں ‘‘ہوگا اور صرف ایک بار نہیں،ہزار بار نہیں میں ہوگا۔مگر ایسے اشتعال انگیز موقع پر حضور ﷺ نے اپنی شان حلیمی کا کیسا مظاہرہ فر مایا پڑ ھئے اور عش عش کیجئے۔
اس وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بارگاہ اقدس میں حاضر تھے ۔انہوں نے جب ابن سعنہ کی یہ گستاخانہ گفتگو سنی تو اس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : اے اللہ کے دشمن!تم یہ بکواس اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں میری موجودگی میں کر رہے ہو ۔تمہیں شرم نہیں آتی؟
نبی کریم ﷺحضرت عمر کی گفتگو کو بڑے سکون و تحمل کے ساتھ سنتے رہے اور مسکراتے رہے پھر حضرت عمر سے فر مایا:اے عمر !جو بات تونے اس سے کہی ہے ۔ہمیں تو تم سے اس سے بہتر بات کی امید تھی۔تمہیں چا ہئے تھا کہ مجھے کہتے کہ میں حسن و خوبی سے اس کی کھجوریں اس کے حوالے کردوں اور اُسے کہتے کہ وہ اپنے حق کا مطالبہ شائستگی سے کرے۔
جاؤ! اور اس کا حق(یعنی کھجوریں)اس کے حوالے کردو اور جتنا اس کا حق ہے اس سے بیس صاع زیادہ کھجوریں اس کو دے دو تا کہ تو نے اسے جو خوفزدہ کیا ہے اس کا بدلہ ہوجائے اور اس کی دلجوئی ہوجائے۔
زید بن سعنہ کہتے ہیں کہ : حضرت عمر مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور اپنے آقا کے فر مان کے مطابق میری کھجوریں بھی میرے حوالے کردی اور بیس صاع اس سے زیادہ بھی مجھے دے دیا۔ا س وقت میں نے حضرت عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
اے عمر! حضور ﷺ کی نبوت کی جتنی نشانیاں ہماری کتابوں میں لکھی ہوئیں تھیں ایک ایک کرکے ان سب کا مشاہدہ میں نے آپ ﷺ کی ذات میں کر لیاتھا۔ مگر دو نشانیاں ایسی تھیں جن سے میں نے ابھی حضور ﷺ کو نہیں آزمایا تھا ۔اب میں نے ان دونوں کو بھی آزما لیا ۔اے عمر! آج میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ :میں اس بات پر راضی ہو گیا کہ:اللہ تعالیٰ میرا رب ہے ۔اسلام میرا دین ہے اور محمد مصطفی ﷺمیرے نبی ہیں۔اس طر ح انہوں نے یہودیت سے توبہ کر کے اسلام قبول کر لیا۔[ضیاء النبی،جلد۵؍ص:۳۱۰تا ۳۱۲]
سبحان اللہ !اس کے علاوہ آپ ﷺ کے حلم کے عجیب سے عجیب تر واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ ان سب کو بیان کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔کچھ تفصیلات جاننے کے لئے ضیاء النبی جلد ۵؍ص:۳۰۱ تا ۳۱۸؍کا مطالعہ کریں۔
کون نہیں جانتا کہ غزوہ احد میں جبکہ آپ ﷺ کو کافروں کی طرف سے بے حد تکلیف پہنچی آپ ﷺکے دندان مبارک شہید ہوگئے اور دشمنان اسلام آپ ﷺ کی شمع حیات گل کرنے پر تلے ہوئے تھے اس وقت صحابہ نے عرض کیا :یارسول اللہ ﷺ! آپ ان کے لئے بد دعا فر مائیں کہ یہ بر باد ہوجائیں ۔ایسے نازک وقت میں بھی آپ ﷺ نے فرمایا کہ:میں بد دعا اور لعنت بھیجنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہوں ۔اور اس کے بعد حضور ﷺ نے اپنا دست مبارک دعا کے لئے اٹھایا تو ان ظالموں اور جفا کاروں کی تباہی اور بر بادی کے بجائے اپنے رب کریم سے یہ التجا کی:اے اللہ !میری قوم کو ہدایت عطا فرما(اور ساتھ ہی ان کی طرف سے بارگاہ الہی میں عذر بھی پیش کیا کہ)یا اللہ! ان کی یہ ظالمانہ حر کتیں اس لئے ہیں کہ یہ مجھے جانتے نہیں اگر یہ مجھے پہچانتے تو ہر گز ایسا نہ کرتے۔
جان کے دشمنوں کو قبائیں دینا۔ راستے میں کانٹے بچھانے والوں کو دعائیں دینا ۔یہ شان صرف رحمت دوعالم ﷺ ہی کی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس خوبی سے حصہ عطا فر مائے ۔آمین بجاہ سید المر سلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
رسول اکرم ﷺ بحیثیت افضل الخلق رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبِّ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبوبِ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت عبد کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت انسان کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت رحمۃ للعا لمین رسول اکرم ﷺ بحیثیت خاتم النبیین رسول اکرم ﷺ بحیثیت صادق القول و الوعد رسول اکرم ﷺ بحیثیت امین رسول اکرم ﷺ بحیثیت حق گو رسول اکرم ﷺ بحیثیت عالم غیب رسول اکرم ﷺ بحیثیت شارع رسول اکرم ﷺ بحیثیت جج رسول اکرم ﷺ بحیثیت سپہ سالار رسول اکرم ﷺ بحیثیت فاتح رسول اکرم ﷺ بحیثیت امن پسند رسول اکرم ﷺ بحیثیت ماہر نفسیات