رسول اکرم ﷺ بحیثیت حق گو



خود کو اچھا کہلانے اور ہر ناحق و باطل کی نظر میں محبوب بننے کی فکر میں دانستہ طور سے حق کو حق اور باطل کو باطل نہ کہنا اور صاف لب و لہجے میں اس کا اظہار نہ کرنا۔ ایک ناعاقبت اندیش دنیاوی لیڈر کی عادت تو ہو سکتی ہے مگر کسی پیغمبر برحق اور ان کے سچے پیرو کاروں کی یہ شان کبھی نہیں ہو سکتی ۔چنانچہ آپ ﷺ نے حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے میں کبھی کوئی پس و پیش نہ فر مایااور مخالفتوں کے عظیم طوفان میں بھی پوری طاقت و قوت سے حق کو حق اور باطل کو باطل ہی کہا۔
مکہ کے بت پر ستوں کے خلاف آپ ﷺکی حق گوئی: آپ ﷺ شروع ہی سے بت پرستی کے خلاف رہے مگر جب تک آپ ﷺ نے اعلان نبوت نہ فرمایا تھا اس وقت تک کوئی آپ سے تعرض نہ کرتا تھا اور جب آپ ﷺ نے اعلان نبوت کیا اور کھل کر دعوت توحید دیااور ان کے جھوٹے معبودوں کا بطلان آفتاب نیم روز سے بھی زیادہ واضح فر مادیا جس کے اثر میں وہ خوش نصیب لوگ جن کی پیشانی میں ازل ہی سے سعادت و نجابت کا نور چمک رہا تھا معبودان باطل کی غلامی کا طوق اپنے گردن سے اُتار پھینکا اور خدائے وحدہ لا شریک کی بارگا ہ ناز میں اپنا جبین نیاز خم کردیا ۔پھر کیا تھا؟ہر طرف ایک طوفان برپا ہوگیا ۔اور آپ ﷺ کی اس صدائے حق کو خاموش کرنے کے لئے کفاران مکہ نے آپ پر اور آپ کے اصحاب پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنا شروع کردئے ۔ظلم وستم کے نت نئے انداز ایجاد کئے گئے مگر ظلم وتشدد کا کوئی بھی حربہ اس صدائے حق کو خاموش نہ کر سکا بلکہ اس کی گھن گرج میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا ۔
تو اس سے عاجز آکر کفاران مکہ نے خوشامد اور مال و دولت کے ذریعے اس آواز کو خاموش کرنا چا ہا ۔ چنانچہ کفاران مکہ کے چند سردار آپ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ : اے محمد!(ﷺ)ہم آج آپ کے ساتھ فیصلہ کن بات کرنا چاہتے ہیں ،خدا کی قسم! جس مصیبت میں آپ نے اپنی قوم کو مبتلا کیا ہے ہم نہیں جانتے کہ کسی اور نے بھی اپنی قوم پر ایسی زیادتی کی ہو۔آپ ہمارے باپوں کو گا لیاں دیتے ہیں ،ہمارے دین میں سو سو عیب نکالتے ہیں ،ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہتے ہیں ۔ہمیں بے وقوف کہتے ہیں ،آپ نے ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا ہے ۔کوئی بری بات ایسی نہ رہی جس سے آپ نے اپنی قوم کو پریشان نہ کیا ہو۔اس سے آپ کا مقصد دولت جمع کرنا ہے تو ہم آپ کے لئے اتنا مال ودولت جمع کر دیتے ہیں کہ آپ ساری قوم میں سب سے بڑے امیر بن جائیں گے۔اور اگر آپ عزت و سرداری کے خواہش مند ہیں تو ہم سب آپ کو اپنا سردار تسلیم کر نے کے لئے تیار ہیں ۔اور اگر آپ تخت و تاج کی آرزو رکھتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ بنانے کے لئے تیار ہیں ۔اور اگر آپ کے اوپر آسیب وجنات کا اثر ہو گیا ہے جس سے مجبور ہوکر آپ اپنی قوم کا امن و سکون برباد کر رہے ہیں تب بھی بتا دیجئے ہم آپ کا علاج ماہر ترین ڈاکٹر سے کرانے کے لئے تیار ہیں چا ہے اس پر جتنابھی روپیہ پیسہ خرچ ہو ہم برداشت کر نے کے لئے راضی ہیں۔
جب وہ لوگ اپنی تمام تر پیشکش بیان کرچکے اور اپنی بکواس مکمل کر چکے تو ہادی انس و جان ﷺنے دو ٹوک الفاظ میں ارشاد فر مایا ان چیزوں میں سے میں کسی چیز کا طلبگا ر نہیں ۔نہ مجھے مال ودولت کی خواہش ہے اور نہ عزت وسرداری کی آرزو اور نہ ہی میری نگاہوں میں تخت وتاج سلطانی کی کوئی قدر وقیمت ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف اپنا رسول بنا کر مبعوث فر مایا ہے اور مجھ پر کتاب نازل کیا ہے ۔مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس کی رحمت کا مژدہ سناؤں اور اس کے عذاب سے بر وقت ڈراؤں اور خبر دار کروں۔ میں نے اپنے رب کے احکام تمہیں پہنچا دیا ہے اور اپنی طرف سے خیر خواہی کا حق ادا کر دیا ہے ۔جو دعوت حق میں لے کر آیا ہوں اگر تم اس کو قبول کر لوگے تو دنیا ا ور آخرت میں سعادت مند رہوگے اور اگر تم رد کردوگے تب بھی میں صبر کروں گا۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ میرے اور تمہارے در میان فیصلہ فر مادے۔
اسی طر ح ایک دوسرے موقع پر جب کفاران مکہ نے آپ کے چچا ابو طالب کے ذریعے آپ ﷺکو مال و دولت کی پیش کش کی تو آپ ﷺ نے دو ٹوک جملوں میں ارشاد فر مایا کہ:اے میرے چچا!اگر وہ سورج کو میرے داہنے ہاتھ میں رکھ دیں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں اور مجھ سے امید کر یں کہ میں دعوت حق کو چھوڑ دوں گا تو یہ نا ممکن ہے۔یا تو اللہ تعالیٰ اس دین کو غلبہ دے گا یا میں اس کے لئے اپنی جان دے دوں گا ۔[ضیاء النبی،جلد دوم،ص:۲۷۵۔۲۸۴۔ ۲۸۵]
یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف حق گوئی: کفاران مکہ کی طرح یہودی اور عیسائی بھی آپ کے پیغام حق کو اپنے لئے سَمِّ قاتل سمجھتے تھے اور طرح طرح سے آپ کوپیغام حق سے باز رکھنے کی ناپاک کو شش کرتے تھے مگر آپ ﷺ نے حق کا سودا کبھی کسی حال میں نہ کیا اور اپنے رب کریم کی خوشی اور رضا کے سوا کسی کی خوشی اور نا خوشی کی پرواہ نہ کی۔چنانچہ ایک مرتبہ نجران کے عیسائی آپ ﷺ کی بارگا میں مناظرے کے لئے آئے اور کہنے لگے کہ حضرت عیسی اللہ کے بیٹے ہیں۔ کیو نکہ کوئی بچہ بغیر باپ کے نہیں ہو سکتا اورچوں کہ ان کا کوئی دنیاوی باپ نہیں تو لازما اللہ ہی ان کا باپ ہے۔(نعوذباللہ من ذلک بغیر حساب)مگر آپ اس کا انکار کرتے ہیں۔
آپ ﷺ نے فر مایا:یہ رب کی قدرت ہے وہ چاہے تو بغیر باپ کے بھی بچہ پیدا کر سکتا ہے اور اگر بغیر باپ کے بچہ ہونا خدا کے بیٹے ہونے کی دلیل ہے تو حضرت آدم کو تو اللہ نے بغیر ماں اور بغیر باپ کے پیدا کیا ۔پھر انہیں کیوں نہیں اللہ کا بیٹا کہتے۔الغرض آپ ﷺ نے دلائل باہرہ و بر اہینِ ساطعہ سے اس کا رد فر مایا۔مگر وہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آیت مباہلہ نازل فر مائی:تو حضور اکرم ﷺ نے ان لوگوں کو مباہلے کا چیلنج فر مایا کہ اگر تم دلائل کے ذریعے سمجھنے کے روادار نہیں ہوتو آؤایک میدان میں جمع ہوکر ایک دوسرے کی بر بادی کے لئے بددعا کریں جو حق پر ہوگا بچ جائے گا اور جو باطل ہو گا مٹ جائے گا اور لوگ اپنی کھلی آنکھوں سے حق و باطل کو دیکھ لیں گے۔مگر وہ لوگ میدان مباہلہ سے بھا گ گئے اور آنے کی جرأت نہ کر سکے۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کسی بھی موقع سے کسی بھی طرح مصلحتاََ یا حکمتاََ حق بات نہ بولتے تو امت پر اس کے اثرات کیا ہوتے اور لوگ گمر اہیوں کی کس گہرائی میں چلے جاتے ۔مگر سلام ہو قافلہء انسانیت کے اس رہبر اعظم پر جنہوں نے کبھی حق کے سوا کچھ نہ بولا۔اور اپنی امت کو یہ تعلیم دی کہ:ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے کلمہ حق بولنا جہاد اکبر ہے۔
افسوس صد افسوس ہے! دین کے ان رہبروں پر جو وارث پیغمبر ہونے کے دعویدار ہیں اور حق گوئی سے باز رہنے کی عذر لنگ پیش کرتے ہیں ۔اور غیروں کی نظر میں سیکولر اورامن پسند کہلانے کی ہوس میں حق بات کہنے سے گر یز کرتے ہیں اور ان کے ساتھ دوستی اور محبت کے رشتے نبھاتے ہوئے کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا یہ کردار ہماری قوم کو کس بد عقیدگی اور بد عملی کی ڈگر پر لے جارہی ہے۔ائے کاش! وہ اپنے محبوب آقا ﷺکی سیرت طیبہ کو اپناکر اپنے رب اور اپنے رسول کی رضا اور خوشنودگی کے حقدار بنتے۔



متعلقہ عناوین



رسول اکرم ﷺ بحیثیت افضل الخلق رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبِّ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبوبِ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت عبد کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت انسان کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت رحمۃ للعا لمین رسول اکرم ﷺ بحیثیت خاتم النبیین رسول اکرم ﷺ بحیثیت صادق القول و الوعد رسول اکرم ﷺ بحیثیت امین رسول اکرم ﷺ بحیثیت حلیم رسول اکرم ﷺ بحیثیت عالم غیب رسول اکرم ﷺ بحیثیت شارع رسول اکرم ﷺ بحیثیت جج رسول اکرم ﷺ بحیثیت سپہ سالار رسول اکرم ﷺ بحیثیت فاتح رسول اکرم ﷺ بحیثیت امن پسند رسول اکرم ﷺ بحیثیت ماہر نفسیات



دعوت قرآن