سچ بولنا اور وعدے کو پورا کرنا آپ ﷺ کی ایسی صفات تھیں جسے آپ کے جانی دشمنوں نے بھی تسلیم کیا اورلاکھوں دشمنی کےبا وجود انکار کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔چنانچہ سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:ایک دن ابو جہل حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: انا لا نکذبک ولکن نکذب ما جئت بہہم آپ کو نہیں جھٹلاتے ہم تو اس دین کو جھٹلاتے ہیں جو آپ لے کر آئے ۔اللہ تعالی نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے یہ آیت مبارکہ نازل فر مائی ۔ فانھم لا یکذبونک ولکن الظلمین باٰیٰت اللہ یجحدونوہ آپ کو نہیں جھٹلاتے لیکن یہ ظالم لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ۔[سورہ الانعام،آیت: ۳۳]
اسی طر ح جب اسلام اور کفر کی فوجیں میدان بدر میں ایک دوسرے کے خلاف صف بندی کر رہی تھیں تو اخنس بن شریق کی تنہائی میں ابو جہل سے ملاقات ہوئی ،اس نے ابو جہل سے کہا کہ:اے ابو الحکم!یہاں ہم تنہا ہیں۔ میرے اور تیرے بغیر کوئی ہماری گفتگو کو نہیں سن رہا ہے مجھے یہ بتاؤکہ:تمہاری محمد(ﷺ)کے بارے میں کیا رائے ہے؟وہ سچے ہیں یا جھوٹے؟ابو جہل نے کہا:خدا کی قسم!محمد ﷺ یقینا سچے ہیں اور آج تک انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔[شفاء شریف،جلد: ۱؍ص:۱۷۳،بحوالہ ضیاء النبی،جلد :۵؍ص: ۳۶۹]
پھر ابو جہل ایمان کیوں نہیں لایا؟اس کی وجہ خود بیان کرتے ہوئے کہا کہ:لواء،سقایہ،حجابہ اور ندوہ سب بنی قصی کے پاس پہلے ہی سے ہے ،اگر نبوت بھی ہم ان کے لئے مخصوص کردیں تو عزت و شرف کے مناصب میں ہمارے لئے کیا رہ جائے گا؟
اس سے واضح ہوگیا کہ وہ حضور ﷺ کو اس لئے نہیں جھٹلاتا تھا کہ نعوذبا للہ آپ سچے نہیں تھے ،جھگڑا صرف جاہ و منصب کا تھا وہ سوچتا تھا کہ نبوت بھی بنی قصی میں چلی گئی تو ہمارے لئے کیا رہ جائے گا۔[ضیاء النبی،جلد:۵؍ص: ۳۷۰]
اسی طرح ہرقل بادشاہ نے جب ابو سفیان(اس وقت ایمان نہیں لائے تھے)سے پوچھا کہ :نبوت کا دعویٰ کر نے سے پہلے کیا تم ان پر جھوٹ کی تہمت لگایا کرتے تھے؟(یعنی ان کو کبھی جھوٹ بولتے ہوئے پایا)تو اسلام سے سخت دشمنی کے باوجود انہوں نے کہا: نہیں،ہم نے ان کو جھوٹ بولتے ہوئے کبھی نہیں پایا۔[بخاری،حدیث: ۷]
حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی شان صداقت کا بخاری و مسلم کی اس روایت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اپنے قر یبی رشتہ داروں اور اپنی قوم کے مخلص لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے کا حکم دیا تو آپ ﷺ صفا پہاڑ کی چوٹی پر تشریف لے گئے اور بآواز بلند فرمایا:سنو!ہوشیار ہوجاؤ!لوگوں نے کہا :یہ کون پکار رہاہے ؟ تو سب نے کہا:محمد(ﷺ)پکار رہے ہیں جب تمام لوگ جمع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺنے فر مایا:اے فلاں کی اولاد! اے فلاں کی اولاد!اے عبد مناف کی اولاد! اے عبد المطلب کی اولاد! پھر یہ سب لوگ آپ کے قریب ہوگئے آپ ﷺ نے فر مایا:مجھے یہ بتلاؤکہ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے گھوڑوں پر سوار ایک لشکر نکلے گا تو کیا تم میری اس بات کی تصدیق کروگے؟قالوا ماجربنا علیک کذبا،سب لوگوں نے کہا:ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے ہوئے نہ پایا۔ [مسلم،کتاب الایمان،حدیث:۲۰۸، بخاری،حدیث: ۴۹۷۱ ]
جس طرح آپ ﷺ بات کے سچے تھے اسی طر ح اپنے وعدے کے بھی سچے تھے اور آپ ﷺ نے جس طرح وعدہ نبھا کر دکھایا اس کی مثال نہ آپ سے پہلے کہیں ملتی ہے اور نہ بعد میں۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن ابی الحمساء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے میں نے حضور ﷺ کے ہاتھوں کوئی چیز بیچی ،لیکن جو چیز میں نے بیچی وہ ساری کی ساری اس وقت میں نے حضور ﷺکی خدمت میں پیش نہ کر سکا اس کا کچھ حصہ باقی رہ گیا ۔میں نے وعدہ کیا کہ حضور یہاں ٹھہریں میں ابھی بقیہ لے کر آتا ہوں ۔میں چلا گیا اور میں یہ بات بھول کر دوسرے کاموں میں لگ گیا ۔تین دن کے بعد مجھے اچا نک یاد آیاکہ میں تو آپ ﷺکے ساتھ وعدہ کر کے آیا ہوں کہ میں بقیہ چیز آپ کو لا کر دیتا ہوں آپ میرا انتظار کریں ۔کہتے ہیں کہ:جب وہ چیز لے کر میں وہاں پہنچا تو رحمت عالم ﷺ اسی جگہ تشریف فر ماتھے جہاں میں حضور ﷺکو چھوڑ کر گیا تھا ۔نبی کریم ﷺنے کسی ناراضگی اور غصے کا اظہار نہ فر مایابلکہ اپنے من موہنے انداز میں اتنا فر مایا:یا فتیٰ لقد شققت علیّ و انا ھھنا منذ ثلاث انتظرک۔ اے نوجوان!تو نے مجھے پریشانی میں ڈال دیا میں تین دن سے یہاں تمہارے انتظار میں بیٹھا ہوں۔[شفاء شریف،جلد۱؍ص:۱۶۵،بحوالہ ضیاء النبی،جلد۵؍ص: ۳۶۴]
!سبحان اللہ! آقا ﷺکے وفائے عہد کی کیا شان ہے
چو نکہ جھوٹ بولنے اور وعدہ خلافی کرنے سے انسان ہر ایک کی نگاہ میں بے اعتبار ہوجاتا ہے اور یہ بری خصلت انسان کو تباہی بر بادی کے ایسے منازل تک پہنچا دیتی ہے کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا اس لئے آپ ﷺ اِس سے خودبھی بچے اور اپنی امت کو بھی اس سے بچنے کی تا کید فر مائی اور اس کے نقصانات سے ڈرایا۔اس تعلق سے مختصرا مصطفی جان رحمت ﷺ کی کچھ احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں،پڑ ھئے اور عمل کیجئے۔
حدیث ۱: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا:سچ بولنے کو لازم پکڑ لو۔کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔آدمی سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی پر قائم رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔اور تم جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتی ہے اور برائی جہنم کی طرف لے جاتی ہے آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اورجھوٹ پر قائم رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اسے کذاب(یعنی بہت بڑا جھوٹا)لکھ دیا جاتا ہے۔ [ترمذی،حدیث:۱۹۷۱،بخاری،حدیث:۶۰۹۴،مسلم،حدیث: ۲۶۰۷]
حدیث ۲: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کے منھ کی بدبو کی وجہ سے فر شتے اس سے کئی میل دور ہوجاتے ہیں۔[ترمذی،حدیث: ۱۹۷۲]
حدیث ۳: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ:حضور ﷺ کے نزدیک جھوٹ سے زیادہ ناپسندیدہ کوئی عادت نہ تھی۔(یعنی حضور ﷺجھوٹ سے سب سے زیادہ نفرت کرتے تھے)۔ [ترمذی،حدیث:۱۹۷۳]
حدیث ۴: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : حضو ر ﷺنے فر مایا:جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑدے اور وہ باطل ہے(یعنی چھوڑنے کی چیزہی ہے)اس کے لئے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا،اور جس نے جھگڑا کرنا چھوڑ دیا اور وہ حق پر ہے (یعنی حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہیں کرتا اس کے لئے جنت کے بیچ میں مکان بنایا جائے گا۔اور جس نے اپنے اخلاق اچھے کئے اس کے لئے جنت کے اعلیٰ درجہ میں مکان بنایا جائے گا۔[تر مذی،حدیث: ۱۹۹۳]
حدیث ۵: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:کوئی بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جب تک کہ مذاق میں بھی جھوٹ بولنا نہ چھوڑ دے اور جھگڑا کرنا نہ چھوڑ دے اگر چہ سچا ہو۔[مسند احمد بن حنبل]
رسول اکرم ﷺ بحیثیت افضل الخلق رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبِّ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبوبِ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت عبد کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت انسان کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت رحمۃ للعا لمین رسول اکرم ﷺ بحیثیت خاتم النبیین رسول اکرم ﷺ بحیثیت امین رسول اکرم ﷺ بحیثیت حلیم رسول اکرم ﷺ بحیثیت حق گو رسول اکرم ﷺ بحیثیت عالم غیب رسول اکرم ﷺ بحیثیت شارع رسول اکرم ﷺ بحیثیت جج رسول اکرم ﷺ بحیثیت سپہ سالار رسول اکرم ﷺ بحیثیت فاتح رسول اکرم ﷺ بحیثیت امن پسند رسول اکرم ﷺ بحیثیت ماہر نفسیات