اللہ تعالیٰ جل مجدہ الکریم نے رسول اکرم ﷺکو جس طرح شارح یعنی قرآن حکیم کے معانی ومطالب اور اس کی تشریح وتوضیح سے اپنی امت کو آگاہی بخشنے والا بنایا اسی طرح آپ ﷺ کو شارع بھی بنایا یعنی آپ ﷺ جس چیز کو چا ہیں اپنی امت پر فر ض و واجب قرار دیں اور جسے چاہیں حرام وناجائز ۔
چنانچہ آپ ﷺکی اس شان کو بیا ن کرتے ہوئے رب تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فر مایا: اور وہ جو غلامی کریں گے اس رسول،بے پڑھے غیب کی خبر دینے والے کی ،جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں ،وہ انہیں بھلائی کا حکم دے گا اور برائی سے منع فر مائے گا، اور پاکیزہ چیزیں ان کے لئے حلال فر مائے گا اور گندی چیزیں ان کے لئے حرام کرے گا ،اور ان پر سے وہ بوجھ اور گلے کے پھندے جوان پر تھے،اسے اتار ے گا ،تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور ان کی تعظیم کریں اور ان کی مدد کریں اور اس نور کی پیروی کریں جو ان کے ساتھ اُتارا گیا ،تو وہی لوگ کامیاب ہیں ۔ [پ،۹،الاعراف: ۱۵۷]
پھر اللہ تبارک وتعالی نے اپنے محبوب کی اس شان کے انکار کرنے والے کے تعلق سے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا کہ: قاتلوا الَّذِیْنَ لایؤمنونَ باللہ ولا بالیوم الاٰخر ولایُحرِّمونَ ماحرَّ م اللّٰہُ ورسلہ ۔ [التوبہ،آیت:۲۹]
ترجمہ : لڑوان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور حرام نہیں مانتے ان چیزوں کو جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ۔
مذکورہ آیات کریمہ سے واضح ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺکو شریعت کے امور میں کسی چیز کو حلال و حرام قرار دینے کا اختیار عطا فر مایا،اسی عطا کردہ اختیار کے تحت حضور سید المر سلین ﷺنے بہت ساری چیزوں کو حلال وحرام فر مایا ۔چنانچہ اس بارے میں کثیر احادیث مبارکہ وارد ہیں ۔مختصرا ان میں سے کچھ یہاں پر قارئین کے نذر ہیں ۔
حدیث ۱: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھمانے کہاکہ: رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :بے شک اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کیا ہے۔حضرت اقرع ابن حابس تمیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ !کیا ہر سال حج فرض ہے ؟تو آپ ﷺ خاموش رہے ،پھرفرمایا:اگر میں ہاں کر دیتاتو ہر سال حج فرض ہوجاتا۔(معلوم ہواکہ حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم احکام شرعیہ پر اختیار کلی رکھتے تھے،اگر چاہتے تو ہر سال حج کرنا فرض فرمادیتے۔[سنن نسائی، رقم الحدیث:۲۶۲۰،ابن ماجہ،رقم الحدیث:۲۸۸۴،ترمذی،رقم الحدیث:۸۱۴ ، ابوداؤد،رقم: ۱۷۲۱]
حدیث۲: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر میری امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں اسے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا ۔ اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفا ظ ہیں کہ:حضور نبی اکرم ﷺنے فر مایا:اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں اس کو ان کے لئے فر ض قرار دے دیتا۔[الصحیح المسلم،رقم الحدیث:۲۵۲ ، ابن ماجہ،باب السواک،حدیث: ۲۸۹]
حدیث۳: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ تو میں نے معاف کردی ،تو روپیوں کی زکوٰۃ ادا کرو،ہر چالیس درھم سے ایک درھم۔ [ترمذی،کتاب الزکوۃ عن رسول اللہ ﷺ،باب ماجاء فی الزکاۃ الذھب والورق،حدیث: ۶۲۰]
حدیث۴: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :رسول اللہ ﷺایک مرتبہ عید الاضحی کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد ارشاد فر مایا:جو ہماری طرح نماز پڑھتا ہے اور قبلے کی طرف رخ کرتا ہے وہ نماز عید سے پہلے قر بانی نہ کرے ،حضرت ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا :یارسول اللہ !میں تو قربانی کر چکا،آپ ﷺنے فر مایا:تم نے جلد بازی کیا،انہوں نے عرض کیا :میرے پاس بکری کا چھ مہینے کا بچہ ہے مگر وہ دو بکریوں سے بھی اچھا ہے،کیا میں اس کو ذبح کردوں؟ حضور ﷺنے فرمایا:ہاں،اس کی جگہ کردو اور ہر گز(اتنی عمر کی بکری) تیرے بعدکسی کی قر بانی میں کافی نہ ہوگی۔ [بخاری،کتاب الاضاحی،باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد،حدیث:۵۵۶۳،مسلم،حدیث: ۱۹۶۱]
حدیث۵: حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکہ کو حرم بنایااور میں نے مدینہ طیبہ کو حرم کیا کہ اس کے خاردار درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے وحشی جانور شکار نہ کئے جائیں ۔ [الصحیح المسلم، رقم الحدیث:۱۳۶۲،الصحیح البخاری،رقم الحدیث:۱۸۶۷،سنن ابی داود، رقم الحدیث: ۲۰۳۴،۲۰۳۵،۲۰۳۶،۲۰۳۷،۲۰۳۸،۲۰۳۹]
حدیث۶: حضرت عمارہ بن خزیمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :میرے چچا صحابی رسول ﷺنے بیان فر مایاکہ:حضور ﷺنے ایک اعرابی سے گھوڑا خریدا ،پھر حضور ﷺاس کو اپنے ساتھ لے چلے تاکہ گھوڑے کی قیمت ادا فر مائیں،حضور ﷺ تو تیزی سے چل رہے تھے مگر اعرابی آہستہ آ ہستہ قدم رکھتا تھا ،راستے میں کچھ لوگوں نے اس اعرابی سے اس گھوڑے کا مول تول کیا ،کیونکہ ان لوگوں کو معلوم نہ تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ اس کو خرید چکے ہیں ،اعرابی نے وہیں سے آواز لگائی کہ آپ(ﷺ)گھوڑا لینا چاہیں تو خریدئیے ورنہ میں گھوڑا بیچ دوں گا،حضور ﷺنے جب اعرابی کی آواز سنی تو رک گئے اور فر مایا:کیا میں نے تجھ سے یہ گھوڑا خرید نہیں لیا ہے؟اعرابی بولا:نہیں ،خدا کی قسم میں نے آ پ کے ہاتھوں نہیں بیچا ہے ،حضور ﷺنے فر مایا:کیوں نہیں ،بلاشبہ تو نے مجھ سے سودا کر لیا ہے،اعرابی کہنے لگا کوئی گواہ پیش کیجئے۔اس وقت حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے کہا:میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اس سے گھوڑا خرید لیا ہے،حضور نبی کریم ﷺحضرت خزیمہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فر مایا:تم کیسے گواہی دیتے ہو(جبکہ خریدتے وقت تم موجود نہ تھے)انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! میں حضور کی تصدیق سے گواہی دے رہا ہوں ،تو حضور ﷺنے حضرت خزیمہ کی گواہی دو مردوں کی گواہی کے برابر قرار دے دی۔ [ سنن ابی داؤد،کتاب الاقضیۃ،باب اذا علم الحاکم صدق الشاھد الواحد یجوز لہ ان یحکم،حدیث: ۳۶۰۷]
مگر جو لوگ مصطفی جان رحمت ﷺکی عظمتوں سے نا آشنا ہیں اور حضور سید عالم ﷺکو ایک عام بشر کے روپ میں دیکھنے کے خوگر ہیں وہ آپ ﷺکی اس شان ِعظیم کا انکار کرتے ہیں ۔قرآن واحادیث کی ان روشن اور صاف و شفاف تصریحات کے ہوتے ہوئے ان منکرین عظمت مصطفی ﷺ کی باتیں اور لایعنی بکواسوں کی کتنی اہمیت رہ جاتی ہے اسے مصطفی جان رحمت ﷺکا ہر سچا نام لیوا جان سکتا ہے۔
رسول اکرم ﷺ بحیثیت افضل الخلق رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبِّ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبوبِ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت عبد کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت انسان کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت رحمۃ للعا لمین رسول اکرم ﷺ بحیثیت خاتم النبیین رسول اکرم ﷺ بحیثیت صادق القول و الوعد رسول اکرم ﷺ بحیثیت امین رسول اکرم ﷺ بحیثیت حلیم رسول اکرم ﷺ بحیثیت حق گو رسول اکرم ﷺ بحیثیت عالم غیب رسول اکرم ﷺ بحیثیت جج رسول اکرم ﷺ بحیثیت سپہ سالار رسول اکرم ﷺ بحیثیت فاتح رسول اکرم ﷺ بحیثیت امن پسند رسول اکرم ﷺ بحیثیت ماہر نفسیات