ایک انتہائی مختصر سی مدت میں ہزاروں مخالفتوں کے باوجودجس ذات نے ایک ایسے دین اور نظام کو جو لوگوں کے باپ داداؤں اور بزرگوں کی تعلیمات کے سراسر خلاف تھا ،لاکھوں لوگوں کے دلوں میں اتار دیا اور ایسے دیوانے پیدا کئے جنہوں نے آپ کے دین کی نشرواشاعت کے لئے اپنی آل و اولاد کو ہنستے ہوئے قر بان کردیا ۔یہاں تک کہ خود اپنی گردنوں کا نذرانہ بصد ہزار شوق و محبت پیش کردیا ۔ قافلئہ انسانیت کے اس رہبر اعظم کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’ نفسیا ت ‘ ایک علم ہے جس کے آپ بہت بڑے ماہر تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ علم نفسیات کا سب سے بڑا ماخذ ومر جع آپ ﷺ کی ذات اقدس ہے ۔
قارئین! اس حقیقت میں شک کرنے سے پہلے ۔عہد رسالت کا وہ دن اپنی نگا ہوں میں لائیے۔حضرت انس ارشاد فر ماتے ہیں کہ:میں حضرت ابو طلحہ اور دوسرے لوگوں کو شراب پلا رہا تھا کہ ایک شخص نے آکر کہا:کیا آپ لوگوں کو خبر نہیں پہونچی ؟لوگوں نے پوچھا کونسی خبر؟انہوں نے کہا کہ:یہی کہ شراب حرام ہوگئی۔یہ سن کر حاضرین مجلس نے کہا کہ:اے انس! شراب کے ان مٹکوں کو بہادو،اطلاع ملنے کے بعد انہوں نے دوبارہ کبھی شراب نہ پیا اور نہ ہی اس کے بارے میں کبھی کچھ پوچھا۔[مسلم،کتاب الاشربہ،حدیث: ۱۹۸۰]
دوسری روایات کے مطابق آپ ﷺنے مدینہ طیبہ کی گلیوں میں اعلان کرا یا کہ لوگوں سے کہہ دو کہ شراب حرام کر دیا گیا۔جب یہ اعلان لوگوں کے کانوں تک پہونچا تو جو جس حال میں تھا وہیں رک گیا۔یہاں تک کہ کوئی شراب نکال کر اپنے ہونٹوں کے قریب لے جا چکا تھا وہ بھی وہیں رک گیا اور شراب کو پھینک دیا۔اس کے علاوہ ہزاروں ہزار رو پئے کی قیمتی شراب جو ان کے گھروں میں پڑی ہو ئی تھی سب کو نالیوں میں بہا دیا ۔اس دن مدینہ شر یف کی نالیوں میں پانی کی جگہ صرف شراب ہی شراب بہتی دکھائی دے رہی تھی۔ اور اس دن کے بعد سے کبھی کسی صحابی نے شراب نہ پیا۔
فر ض کیجئے کہ دنیا کے سارے ماہر نفسیات ایک جگہ جمع ہو جائیں اور سب مل کر کوشش کریں تو کیااتنی کم مدت میں لوگوں کے اندر وہ تبد یلی پیدا کر سکتے ہیں جو رسول اکرم ﷺنے کیا؟بلکہ کیا ایک آدمی کے اندر بھی ایسا جذبہ بھر سکتے ہیں جو جذبہ صحابہ کرام کے اندر تھا؟اور کیا ایک ایسا آدمی جو شراب کا ایک زمانے سے عادی ہو ،لاکھ سمجھا بجھا کر بھی اس پر ایسااثر ڈال سکتے ہیں کہ جب وہ سنے کہ فلاں ماہر نفسیات نے اس سے منع کیا ہے تو شراب کی بوتل توڑ دے اور دوبارہ اپنی پوری زندگی میں کبھی شراب کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرے؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہوگا۔اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آج لوگوں کو ان بری عادتوں سے باز رکھنے کے لئے با ضابطہ وزراتیں قائم کی گئی ہیں اور حکومت اس پر لا کھوں روپئے خرچ کر رہی ہے مگر نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
مگر رسول اکرم ﷺنے یہ سب کچھ کر دکھایا۔یہاں تک کہ آپ نے خود جا کر لوگوں سے نہیں کہا بلکہ اپنے ایک صحابی سے اعلان کروایا تو وہ قوم جو شراب کی عادی تھی ،اچانک شراب سے ایسا منہ موڑ لیا کہ زندگی میں پھر دوبارہ شراب کی طرف دیکھنا بھی گورا نہ کیا۔ یقینا اس ذات با بر کات کے لئے ’ ماہر نفسیات ‘ کا لفظ انتہائی چھوٹا ہے۔بہر حال۔
ذیل میں ہم انسانی نفسیات پر پڑنے والے اچھے اثرات اور اس کے عوامل کے بارے میں سیرت مصطفی ﷺ سے کچھ نمونے پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں جسے اپنا کر ہر قائد ورہبر اوراستاذ ومربی کامیابی کی منزلوں سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔
مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنا:مسکراہٹ قدرت کا ایک بہت بڑا عطیہ ہے جس کے اندر کشش کی بے پناہ قوت ودیعت کی گئی ہے ، ہزاروں من غم کے پہاڑ کو سکنڈوں میں چور چور کر کے رکھ دینااور سخت سے سخت دشمن کو اپنا ہمنوا بنا لینا اس کا ایک معمولی کام ہے ۔ اس کے برخلاف منھ بسورنا اورغمزدہ رو ہونا خوشیوں کے طوفان کو غموں میں بدل کر رکھ دیتا ہے اور اچھے سے اچھے دوست کو بھی ہم سے دور کر دینے کی وجہ بن جاتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ نبی کریم ﷺ لوگوں سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتے تھے۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزء بیا ن کرتے ہیں کہ :میں نے رسول اللہ ﷺسے زیادہ مسکرانے والا کسی کو دیکھا ہی نہیں ۔ [تر مذی ،کتاب المناقب ،باب فی بشاشۃ النبی ﷺ،حدیث : ۳۶۴۱]
یہاں تک کہ ایک دشمن یا غلطی کر بیٹھنے والا انسان جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس خوف سے ڈرتے اور کانپتے ہوئے اس امید میں آتا کہ ہمیں حضور کے غضب ناک چہرے کا سامنا کرنا پڑے گا مگر جب وہ حاضر ہوتا اور آپ کے چہرے پہ غصہ اور غضب کے بجائے مسکراہٹ اور محبت کا منظر دیکھتا تو آپ کے قدموں میں اپنا دل بچھا دیتا اورہزار دل سے آپ پر قر بان ہونے کو تیا ر ہوجاتا۔ چنانچہ جنگ بدر کے بعد دو کافر وں نے تنہائی میں آپ ﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ بناکر آپ کی بارگاہ میں آئے لیکن وہ اپنے منصوبے میں ناکام رہے اورپکڑے گئے اب انہیں امید تھی کہ آپ ﷺغصہ اور ناراض ہوکر انہیں بڑی زبردست سزا دیں گے ۔مگر آقائے کریم ﷺ نے اس قسم کا کوئی رد عمل ظاہر نہ فر مایا اس کے برخلاف ان سے مسکرا کر بات کی۔پھر کیا تھا ،کل تک جو آپ کے جان کا دشمن تھا وہ آپ ﷺ کے دامن میں آکر آپ کا دیوانہ بن گیا۔اس قسم کے بے شمار واقعات کتب سیرت میں موجود ہیں ۔اس کی اہمیت کے پیش نظر رسول اکرم ﷺنے اپنی امتیوں کو بھی مسکراتے چہرے کے ساتھ ملنے کی تر غیب دیتے ہوئے فر مایا کہ:تمہارا اپنے بھائی سے مسکرا کر بات کرنا بھی صدقہ (یعنی نیکی)ہے۔ [ترمذی،حدیث: ۱۹۵۶]
پہلی اور آخری بات:ملاقات کے وقت پہلی اور آخری بار کہی گئی باتوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کیونکہ اس کا اثر سامنے والے پر دیر تک رہتا ہے ۔چنانچہ اگر پہلی بات ہماری زبان سے غلط نکل گئی تو ہماری ملاقات ایک ناخوشگوار ملاقات کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اگر آخری بات غلط ہوگئی تو بچھڑنے کے بعد بھی اس کے اثرات مدتوں تک قائم رہتے ہیں۔اسی لئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام ان دونوں باتوں کا خاص خیال فر ماتے تھے ۔اور پہلی اور آخری بات کے طور پر ہر ملنے والے کو صحت وسلامتی کی دعا سے نوازتے تھے۔جس کے اچھے اثرات آپ ﷺسے ملنے والے حضرات پر خوب قائم ہوتے تھے اور بسا اوقات وہ ملنے والے کے لئے ایک یاد گار ملاقات بن کر ان کے دلوں میں حضور ﷺ سے دوسری بار بھی ملاقات کی خواہش پیدا کرتی تھی۔
عفو ودر گزر:کسی کی غلطی کو طاقت وقوت کے باوجود معاف کردینا ۔یہ ایسا کام ہے جس کے خوشگوار اثرات انسان کو سامنے والے کی عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔اور بسا اوقات انسان کو دیوانہ بنا دیتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ کبھی کسی سے اپنی ذات کے لئے انتقام نہیں لیا کرتے تھے یہاں تک کہ اپنی جان کے دشمنوں کو بھی اس کی توقع کے بر خلاف انتہائی خوشدلی سے معاف کردیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک غزوہ سے واپسی کے دوران آپ ﷺنے راستے میں ایک جگہ پڑاؤڈالا اور اپنی تلوار درخت سے لٹکا کر سو گئے ایک کا فرنے اچھا موقع سمجھ کر آپ کی تلوار لی اور اچانک سونے کی حالت میں آپ ﷺ کے سینئہ اقدس پر قتل کے ارادے سے سوار ہوگیا اور کہنے لگا کہ:اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟آپ ﷺ نے فر مایا:اللہ۔اس نام کی ہیبت سے تلوار اس کے ہاتھ سے گڑ پڑی اور پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام تلوار لے کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے اب اسے اپنے قتل کئے جانے کا پورا یقین ہوگیا مگر حضور علیہ السلام نے اسے چھوڑ دیا۔اب تو وہ خوشی سے پاگل ہونے لگا اور اپنی قوم کے پاس آکر گلا پھاڑ پھاڑ کر کہنے لگا کہ:ائے لوگوں آج میں ایک سب سے اچھے انسان کے پاس سے آرہا ہوں۔ [ضیاء النبی و عامہ کتب سیرت]
اسی طرح فتح مکہ کے بعد جب کہ کفاران مکہ،جو حضور اور آپ کے صحابہ پہ ظلم وستم کی انتہا کر چکے تھے ۔اپنی جان سے نا امید ہوگئے تھے اور سمجھ بیٹھے تھے کہ اب ہمیں مرنا ہی ہے کیو نکہ ان کے گناہ ہی ایسے تھے جن کا بدلہ سوائے قتل کے اور کچھ نہ تھا۔ مگر حضور رحمت عالم ﷺنے ان سے رحمت بھری گفتگو فر مائی اور بیک جنبش لب سب کو معاف کردیا۔
نرمی اور چشم پوشی:ہر انسان سے کچھ نہ کچھ جانے انجانے میں غلطیاں ہو جاتی ہیں لیکن اگر ان غلطیوں پر انہیں نرمی اور محبت سے سمجھانے کے بجائے ان کے ساتھ سختی برتی جائے اور برا بھلا کہاجائے تو بسا اوقات یہ رویہ انسان کو سر کش اور گنا ہوں کی عادی بنادیتاہے۔ اسی طرح اگر ہمیشہ نر می ہی برتی جائے تو یہ بھی گناہوں پر جری اور بیباک بنادیتی ہے اس لئے موقع محل کی مناسبت سے نرمی اور سختی برتنا چاہئے۔ چنانچہ آپ ﷺ غلطیوںپر ناراض بھی ہوتے تھے اور پیار ومحبت سے تنبیہ بھی کرتے تھے۔چنانچہ ایک مرتبہ ایک دیہات کے رہنے والے صحابی مدینہ شریف آئے اور مسجد میں استنجا کر نے لگے یہ دیکھ کر صحابہ کرام ان کی طرف لپکنا چاہا مگر حضور ﷺنے انہیں منع فر مایا اور ارشاد فر مایا :تم نرمی کرنے کے لئے بھیجے گئے ہونہ کہ سختی کرنے کے لئے ۔اور جب وہ اطمینان سے استنجا کر چکے تو آپ نے ایک ڈول پانی منگا کر اس پر بہادیا اور پھر ان کو بلا کر نہایت پیار بھرے لہجے میں سمجھایا کہ:یہ مسجد اللہ کا گھر ہے یہاں پر استنجا کرنا گناہ عظیم ہے۔اس پر انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا اور پھر دوبارہ ایسا نہ کرنے کا عہد کیا ۔آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر انہیں اسی حالت میں چھیڑا جاتا تو ان کا رد عمل کیا ہوتا ۔ اور کیا ان پر وہ اثرات ہوتے تو جو ایسا نہ کرنے میں پڑے۔[بخاری،حدیث : ۲۲۰]
اچھے اور محبت بھرے الفاظ سے مخاطب کرنا: اچھے اور پیار بھرے الفاظ سے کسی کو بلانا یا مخاطب کرنا سامنے والے کو اطاعت وفر مانبرداری کرنے پر اکساتا ہے اس کے بر خلاف برے اور بھونڈے الفاظ سے پکارنا نفرت اور نافر مانبرداری پر ابھارتا ہے ۔اسی لئے حضور نبی کریم ﷺہر شخص کو حسب حال اس کے اچھے ناموں یامحبت بھرے الفا ظ سے پکارا کرتے تھے۔جیسے آپ ﷺ چھوٹے بچوں کو ’ یا بنی‘ ائے میرے بیٹے۔’یا ابن اخی ‘ اے میرے بھتیجے وغیرہ الفا ظ سے پکارتے تھے۔[اسلامی شریعت کے اعتبار سے چونکہ ہر مسلمان بھائی بھائی ہوتا ہے اور بھائی کا بیٹا بھتیجا اسی لئے اہل عرب عام طور سے بچوں سے اظہار محبت کی خاطر ’ یاابن اخی ‘ کہتے تھے۔]
لوگوں سے اس کی ذہنی سطح کے مطابق کلام کرنا: اکثر لوگ سامنے والے کی سطح پراتر کر اس کی ذ ہنی استعداد کے مطابق گفتگو نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہایت مضبوط دلائل و شواہد پیش کرنے کے باوجود وہ اپنے ہدف میں نا کام ہوجاتے ہیں ۔مگر رسول اکرم ﷺلوگوں سے ان کے ذہنی سطح کے مطابق ہی گفتگو کیا کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ وہ آپ کی گفتگو سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔بہت ساری حدیثوں کے پڑ ھتے ہو ئے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے ایک عام سی بات کہی ہے جس میں ہمیں بظاہر کوئی بڑی بات نہیں لگتی مگر وہی بات کسی کے لئے اتنی موثر ہوئی کہ وہ صدیوں پرانے دین کو چھوڑ کر قبول اسلام کے اظہار سے اپنے آپ کو نہ روک سکے۔جیسے
امام احمد بن حنبل ،ابو تمیمیہ ہجیمی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بدوی(صحرا وجنگل میں رہنے والا آدمی)رسول اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا :کیا آپ اللہ کے رسول ہیں؟آپ ﷺنے فر مایا:بالکل۔پھراس شخص نے پوچھا کہ آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں ؟آپ ﷺ نے فرمایا:میں اس ایک خدا کی طرف بلاتا ہوں ،جسے اگرتم تکلیف میں پکارتے ہو تو وہ تمہاری تکلیف دور کر دیتا ہے ۔قحط سالی میں پکارتے ہو تو تمہارے لئے اناج پیدا کر دیتا ہے اور بے آب و گیاہ زمین میں راستے سے بھٹک کر اسے پکارتے ہو تو تمہیں راستہ دکھادیتا ہے۔آپ ﷺکی یہ گفتگو سن کر وہ شخص مسلمان ہوگیا۔[مسند احمد بن حنبل،حدیث: ۵۰۶۵]
ایک بدوی آزمائش،تنگ دستی اور مصائب کا بہت قریب سے مشاہدہ کرتا ہے ۔ہزاروں بار اس کی زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں کہ وہ قحط سالی ،مصائب اور تنگ دستی سے پر یشان ہوکر انسانی فطرت کے تحت وہ اپنے خیال کے مطابق سب سے بڑی طاقت والی ذات کو پکارتا رہتا ہے ۔ اسی لئے آپ ﷺنے پہلے ان چیزوں کا تذکرہ فر مایاپھر اس لامحدود طاقت وقوت والی ذات کے بارے میں بتایاجس کے سوا کوئی جائے پناہ اور ٹھکانہ نہیں ۔اس طرح رسول اللہ ﷺنے بدوی کے ضمیر کو جھنجھوڑا ۔جس میں اگر چہ ان حقائق کی آواز موجود تھیں لیکن ابھی تک وہ اس کے معانی و مطالب سے نا آشنا تھا۔گو یا رسول اللہ ﷺنے اس کی ضمیر کے اندر موجود اس آواز کے مفہوم ومطالب کی وضاحت فر مائی جس نے اس کے دل کو اتنا متأ ثر کیا کہ وہ اسلام قبول کئے بغیر نہ رہ سکے۔یہ گفتگو اگر چہ بالکل سادہ تھی مگرصحرا میں رہتے ہوئے انہیں جن تجربات سے نہ جانے کتنی بار گزرنا پڑا تھا اس کے بالکل موافق تھی اور ان کی نفسانیت سے اس قدر ہم آہنگ تھی کہ وہ قبول اسلام پر مجبور ہوگیا۔
اس کے علاوہ نفسیات کی ہزاروں مثالیں سیرت طیبہ میں موجود ہیں جیسے قول و فعل میں تعارض نہ ہونے دینا ،بظاہر تعارض کی صورت میں اس کی وضاحت کر دینا اورجو حکم دینا اس پر خود بھی عمل کرنا وغیرہ جو ہر ایک کے لئے اور بالخصوص رہبران عالم کے لئے مشعل راہ ہیں۔
رسول اکرم ﷺ بحیثیت افضل الخلق رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبِّ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبوبِ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت عبد کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت انسان کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت رحمۃ للعا لمین رسول اکرم ﷺ بحیثیت خاتم النبیین رسول اکرم ﷺ بحیثیت صادق القول و الوعد رسول اکرم ﷺ بحیثیت امین رسول اکرم ﷺ بحیثیت حلیم رسول اکرم ﷺ بحیثیت حق گو رسول اکرم ﷺ بحیثیت عالم غیب رسول اکرم ﷺ بحیثیت شارع رسول اکرم ﷺ بحیثیت جج رسول اکرم ﷺ بحیثیت سپہ سالار رسول اکرم ﷺ بحیثیت فاتح رسول اکرم ﷺ بحیثیت امن پسند