رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبّ الہی



بندے کا اپنے خالق و مالک سے محبت کرنا ایک فطری بات ہے اسی لئے ہر بندہ مومن اپنے رحیم وکریم رب سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ جیساکہ خود اللہ عز وجل ارشاد فر ماتا ہے:وہ لوگ جو ایمان لائے اپنے رب سے زیادہ کسی سے محبت نہیں کرتے ہیں ۔[سورہ بقرہ،آیت: ۱۶۵]
مگر آقائے کریم ﷺکو اپنے رب کریم سے جیسی خالص اور گہری محبت تھی وہ کسی دوسرے کے لئے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ چو نکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکی سیرت طیبہ کو ہمارے لئے نمونہ عمل بنایا اس لئے ہم یہاں پر آپ ﷺکی محبت الہی کی چند جھلکیاں صرف اس مقصد خیر کے تحت پیش کررہے ہیں تاکہ ہر قاری اس کو اپنا کر اپنے رب کی رضا کو حاصل کر سکیں۔
نمبر۱: اللہ جل جلالہ کی محبت کا یہ جبری تقاضا ہے کہ بندہ اپنے رب کی نا پسندیدہ چیزوں سے دور رہے اور اس کے احکام کی بجاآوری میں کسی بھی چیز کو حائل نہ ہونے دے ۔چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:جب بھی رسول اکرم ﷺکو دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے زیادہ آسان چیز کو اختیار فرماتے بشر طیکہ وہ گناہ نہ ہو،اور اگر وہ گناہ ہوتا تو آپ ﷺسب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے ہوتے ۔ [صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب مباعدتہ ﷺللاثام،حدیث: ۲۳۲۷]
اور جب ہجرت کا حکم ہوا تو باوجود اس کے کہ آپ ﷺ کو مکۃ المکرمہ سے شدید محبت تھی جس کا اظہار آپ ﷺ نے خود مکہ شریف کو الوداع کہتے ہوئے فر مایا:بخدا، اے مکہ کی سر زمین !تو مجھے اللہ تعالیٰ کی ساری زمینوں سے زیادہ محبوب ہے اور بے شک اللہ تبارک وتعالی کی ساری زمینوں سے اللہ تعالی کو زیادہ پیاری ہے۔اگر تیرے رہنے والوں نے مجھے یہاں سے نہ نکالا ہوتا تو میں کبھی تجھ سے نہ نکلتا۔ [تر مذی]اس شدید محبت کے باوجود آپ ﷺنے مکۃ المکرمہ کو اللہ کے لئے تر ک کردیا۔
نمبر۲: محبت اورغیرت آپس میں ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں،کہیں محبت ہو اور غیرت نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے ۔چنانچہ رسول اکرم ﷺاپنے رب کریم کی محبت میں بڑے غیور تھے آپ کبھی ایسا کوئی کام نہیں کرتے جس سے آپ کی محبت الہیہ میں کوئی قصور نظر آتا ۔
جیساکہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺاتنے مہربان اور نرم دل تھے کہ کبھی آپ ﷺ اپنی ذات کے لئے کسی سے کوئی انتقام نہیں لیتے (چاہے وہ آپ ﷺ کے ساتھ کتنا ہی جفادارانہ سلوک کیوں نہیں کر بیٹھتا ،یہاں تک کہ وہ لوگ جنہوں نے آپ ﷺ کی شمع حیات ہی بجھانے کی کوشش کی جیساکہ ایک یہودی عورت نے گوشت میں آپ کو زہر ملا کر کھلادی اور لبید بن عاصم نے آپ ﷺپر جادو کردیا، آپ ﷺکو معلوم بھی ہو گیا مگرطاقت و قوت کے باوجودآپ نے اس سے کوئی بدلہ نہ لیا)ہاں مگر جب کوئی شخص اللہ رب العزت کی مقررہ حدوں میں سے کوئی حد توڑتا تو پھر آپ ﷺاسے کبھی در گزر نہیں کرتے چاہے وہ آپ کا کتنا ہی محبوب کیوں نہ ہوتا جیساکہ آپ ﷺ نے ایک موقع پرارشاد فر مایاکہ:اے لوگو!سنو،اگر محمد(ﷺ)کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ ضرور کاٹ دوں گا۔[بخاری،حدیث:۶۷۸۸،صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب مباعدتہ ﷺللاثام،حدیث: ۲۳۲۷]
نمبر۳: سچی محبت کی بڑی دلیلوں میں سے ایک یہ ہے کہ محب کے ہر کام کا مقصود محبوب کی خوشنودگی ہو ۔ جیساکہ آپ ﷺ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فر مایا:جس شخص نے اللہ کے لئے محبت کی،اللہ کے لئے دشمنی کی ،اللہ کے لئے دیااور اللہ کے لئے دینے سے ہاتھ روک لیا (یعنی اس کے ہر کام کا مرکز ومحور فقط ذات الہی ہوگیا)تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔[سنن ابوداؤد،کتا ب السنۃ،باب الدلیل علی زیادۃ الایمان و نقصانہ،حدیث: ۴۶۸۱]
چنانچہ آپ ﷺکے ہر کام کا مرکز فقط رضائے الہی تھا جیساکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نماز کی تکبیر کہنے کے بعد فرماتے: بے شک میں سب سے کنارہ کش ہوکر اس رب کریم کی طرف متوجہ ہوں جو زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا ہے۔بے شک میری نماز ،میری قربانی،میری زندگی اور میری موت سب اسی دونوں جہاں کے پالنہار کے لئے ہے۔[مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلوۃ ،باب فیما یفتتح بہ الصلوۃ،حدیث: ۲۴۱۴]
آپ ﷺکی سیرت طیبہ کا یہ پہلو اتنا واضح ہے کہ مزید کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ،آپ ﷺکا رحمۃ للعالمین ہونے کے باوجود اللہ کے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنا ،منافقوں سے دور رہنا اور اپنے اصحاب کو دور رکھنا ،غلط کاموں پر ناراض ہونا ،اللہ تعالیٰ کے حدود کو توڑنے والے پر حد قائم کرنا در حقیقت یہ سب اللہ ہی کی رضا جوئی کے لئے تھا ۔
نمبر۴: محبت کی سچائی کا سب سے آخری امتحان اس وقت ہوتا ہے جب محبوب کے لئے جان کا نذرانہ پیش کرنے کا مرحلہ آتا ہے ۔ اگر محب اس ناز ک امتحان میں بھی کامیاب ہوجا تا ہے تو اس کے بعد کسی مزید شہادت کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔شاید یہی وجہ ہے کہ جب کسی عام بندے کی وفات ہوتی ہے تو اس سے اس کے سچے بندے ہونے کا قبر میں فرشتوں کے ذریعے آزمائش ہوتی ہے ،مگر جب ایک اللہ کی محبت سے سرشار بندہ اپنے رب کریم کی رضا جوئی کے لئے دین کے دشمنوں سے اپنے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے کرا کر اپنی آخری آرام گاہ میں پہنچتا ہے تو اس سے مزید کوئی امتحان دینے کی ضرورت پیش نہیں ہوتی کیونکہ اس کا ہر زخم اور اس کے وجود پر لگا ہوا ہر نشتر خود اس کی سچائی کاگواہ ہوتا ہے۔
آپ ﷺ کے سینہ اقدس میں اپنے رب کریم کے لئے اپنی گردن کٹانے کی کیسی شدید چاہت تھی اس کا اندازہ اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:آقائے کریم ﷺنے ارشاد فر مایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے:میری آرزو ہے کہ میں اللہ کے راستے میں قتل کیا جاؤں ،پھر زندہ کیا جاؤں ،پھر قتل کیا جاؤں ،پھر زندہ کیا جاؤں ،پھر قتل کیا جاؤں ،پھر زندہ کیا جاؤں ،پھر قتل کیا جاؤں۔[صحیح بخاری،کتاب الجہاد والسیر،باب تمنی الشھادۃ، حدیث: ۲۷۹۷]
آقائے کریم ﷺ کے قلب مبارک کے اندر اپنے رب کی کیسی سچی اور شدید محبت جلوہ گر تھی ایک اور روایت سے بڑی واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔روایت ہے کہ :جب آقائے کریم ﷺ کو ان کے رب نے اختیار دیا کہ آپ چاہیں تو دنیا میں رہیں اور چاہیں تو موت کا سخت کڑوا جام نوش کر کے میری بارگاہ میں آجائیں تو آقائے کریم ﷺنے دنیا میں رہنے کے بجائے اپنے رب کریم کی بارگاہ میں جانے کے شوق میں موت کا سخت جام پینے کو اختیار فر مایا۔اور آپ اس دار فانی سے کوچ کرکے دار بقا کی طرف چلے گئے۔آپ ﷺ نے اپنے سفر آخرت سے پہلے مسجد میں اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے فر مایا:کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت میں اختیار دیا تو اس بندے نے آخرت کو اختیار کر لیا ،سارے صحابہ تو خاموش رہے مگر راز دار نبوت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرات ٹپکنے لگے ،صحابہ نے کہاکہ اس میں رونے کی کون سی بات ہے حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے تو صرف ایک بندے کے حال کا تذکرہ فر مایا ہے:سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:وہ بندہ آپ ﷺ ہی ہیں ۔[ بخاری،کتاب المغازی،باب مرض النبی ﷺ ووفاتہ، حدیث:۴۴۳۵، مسلم،حدیث:۲۱۹۱،ابن ماجہ،حدیث: ۱۶۲۰]
آخر میں ،ایک ایسی حقیقت پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں جس پر کوئی غبار نہیں کہ:دنیا میں جس نے بھی جس سے بھی جتنی محبت کی ہے ان سب سے بڑھ کر آپ ﷺ نے اپنے رب کریم سے محبت کی اور اپنی امت کو بھی یہی درس دیا۔اور آقائے کریم ﷺکے اس درس محبت کے جو عالم گیر اثرات قائم ہوئے وہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے انسان کے درس کا نہ ہوا ،چنانچہ اس امت کا ہر چھوٹابڑا اپنے رب کی محبت اور اس کے دین کے ناموس کی تحفظ کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا ہے اور تا قیام قیامت سمجھتا رہے گا۔ یہ سب حقیقت میں اس بے پناہ محبت کے اثرات ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے لئے آپ ﷺکے سینہ اقدس میں موجود تھا ۔اللہ جل مجدہ الکریم کی بارگاہ میں عاجزانہ التجا ہے اپنے حبیب ﷺکے صدقے میں ہما رے دلوں میں اپنی اور اپنے حبیب ﷺکی سچی محبت عطا فرمائے۔



متعلقہ عناوین



رسول اکرم ﷺ بحیثیت افضل الخلق رسول اکرم ﷺ بحیثیت محبوبِ الٰہی رسول اکرم ﷺ بحیثیت عبد کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت انسان کامل رسول اکرم ﷺ بحیثیت رحمۃ للعا لمین رسول اکرم ﷺ بحیثیت خاتم النبیین رسول اکرم ﷺ بحیثیت صادق القول و الوعد رسول اکرم ﷺ بحیثیت امین رسول اکرم ﷺ بحیثیت حلیم رسول اکرم ﷺ بحیثیت حق گو رسول اکرم ﷺ بحیثیت عالم غیب رسول اکرم ﷺ بحیثیت شارع رسول اکرم ﷺ بحیثیت جج رسول اکرم ﷺ بحیثیت سپہ سالار رسول اکرم ﷺ بحیثیت فاتح رسول اکرم ﷺ بحیثیت امن پسند رسول اکرم ﷺ بحیثیت ماہر نفسیات



دعوت قرآن